ڈاکٹر ایمان قیصرانی کی شعری آن بان اور شخصیت کا چرچا
دامان کی دھرتی ہمیشہ سے عشق، روایت، علم اور شعور کی مٹی رہی ہے۔ یہی زمین جب بیٹی کو جنم دیتی ہے تو وہ محض ایک وجود نہیں رہتی بلکہ اپنی سرزمین کی آن بان اور تہذیب کی ترجمان بن جاتی ہے۔ انہی بیٹیوں میں ایک جگمگاتا ہوا نام ڈاکٹر ایمان قیصرانی ہے—وہ شاعرہ جنہوں نے لفظوں کو اپنے درد اور محبت کے لہو سے رنگ کر، اردو ادب میں ایک ایسی پہچان بنائی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
ورثہ اور لفظوں سے رشتہ
ڈاکٹر ایمان قیصرانی کا تعلق قیصرانی بلوچ قبیلے سے ہے، جہاں روایتیں صدیوں سے دھرتی کی سانسوں کے ساتھ جڑی رہی ہیں۔ ان کے والد، مرحوم بشیر احمد عاجز قیصرانی نعتیہ شاعری کے روشن حوالہ تھے۔ یہی نسبت ایمان قیصرانی کے لہو میں اتری اور یہی چراغ انہوں نے اپنے قلم میں روشنی کے طور پر سنبھالا۔ لیکن صرف ورثہ کافی نہیں ہوتا، اسے آگے بڑھانے کے لیے احساس کی گہرائی اور دل کے زخم درکار ہوتے ہیں—اور یہ دونوں ایمان قیصرانی کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔
شخصیت کا کمال
ایمان قیصرانی محض شاعرہ نہیں، بلکہ ایک مکمل انسان ہیں۔ ان میں بیٹی کا خلوص، ماں کی دعا کا عکس، ایک استاد کا وقار اور ایک فنکار کا لطیف احساس یکجا ہو کر انہیں خاص بنا دیتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے دکھ کو تخلیق میں بدل کر دوسروں کے دلوں میں امید کے چراغ جلاتی ہیں۔
ان کی شخصیت میں محبت کی نرمی بھی ہے اور مزاحمت کی سختی بھی۔ وہ نرم لہجے میں محبت کا گیت گاتی ہیں تو دوسرے لمحے قبیلے کی لڑاکا روح بن کر اپنی پشت کی طاقت کا اعلان بھی کرتی ہیں۔
علمی اور تدریسی سفر
ڈاکٹر ایمان قیصرانی نے گورنمنٹ گرلز کالج رحیم یار خان سے ایف ایس سی، پھر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اور ایم فل اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔ پی ایچ ڈی منہاج یونیورسٹی سے کرنے کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی
سعودی عرب کے انٹرنیشنل اسکول و کالج طائف میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ وہاں انہوں نے پانچ مرتبہ گولڈ میڈل حاصل کیے، جو ان کی محنت، قابلیت اور عزم کی روشن مثال ہے۔ لیکن ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ شاگردوں کو صرف علم نہیں دیتیں بلکہ کردار، خودداری اور وقار بھی عطا کرتی ہیں۔
دکھ اور تخلیق کی جوت
زندگی نے انہیں کئی زخم دیے: والد کی جدائی، اجنبیت کے کرب اور رشتوں کے بدلتے رنگ۔ لیکن یہ سب اُنہیں توڑنے کے بجائے مزید گہرا اور حساس بنا گئے۔ وہ دکھ کو شکست نہیں مانتیں، بلکہ اُسے قوتِ اظہار بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ہجر بھی ہے مگر اُس کے ساتھ وصل کی طلب بھی، یاس بھی ہے مگر اُمید کی کرن بھی۔
> بس ایک بار مرے ساتھ گھر گیا سورج
پھر اس کے بعد اندھیروں سے ڈر گیا سورج
شاعری کی انفرادیت اور نسوانی شعور
ڈاکٹر ایمان قیصرانی کے اشعار میں عورت محض محبت کا استعارہ نہیں بلکہ وقار، قربانی، بغاوت اور خودی کی علامت ہے۔ وہ دکھ کو ہتھیار اور وفا کو روشنی بنا دیتی ہیں۔
حصارِ غم میں جو تنہا کھڑی ہے
وہ لڑکی اپنی قامت میں بڑی ہے
یہ شعر اُن کے کلام کی بنیادی روح کو ظاہر کرتا ہے۔
شعری مجموعے اور ادبی قد
ان کے دو شعری مجموعے "کوئی میری چاہ میں جل بجھا" اور "میری یاد آئے گی" شائع ہو چکے ہیں اور ادبی دنیا میں ان کے چرچے ہیں۔ تیسرے مجموعے "عشق زار" کا شدت سے انتظار ہے، جو ان کی فکری پختگی اور تخلیقی ارتقاء کا نیا سنگ میل ثابت ہوگا۔
انتخابِ کلام (راز و نیاز کے اشعار)
محبت اور ہجر
کافی کے ایک کپ کے بہانے کبھی کبھی
آیا کرو گے مجھ کو منانے کبھی کبھی
بس ایک شام میں اک عمر جینے نکلی تھی
میں تیرے ساتھ کبھی چائے پینے نکلی تھی
ماں اور دعا
یہ میری ماں کی دعا ہے جو چارسو میرے
ہر ایک ردِّ بلا کا حصار رکھتی ہے
ماں کی صورت میں ہر اک لمحہ دعاؤں کے لیے
معتبر ایک وسیلہ بھی مری پشت پہ ہے
دکھ اور وفا
خدا کرے نہ رلائیں تمہیں ہمارے دکھ
ابھی نصیب میں باقی ہیں کتنے سارے دکھ
ہمارا عشق وفائیں، غزل، کتابیں تم
تمہارا عشق سزائیں، جفا، خسارے دکھ
نسوانی وقار اور بغاوت
شعر لکھتی ہوں محبت کے مگر یاد رہے
جنگجو ایک قبیلہ بھی مری پُشت پہ ہے
راز و نیاز کی کیفیت
آنکھوں کی دہلیز پہ ٹھہرا دریا دینے والی تھی
داسی تھی اور دان میں اپنا صدقہ دینے والی تھی
تم نے بڑھ کر روک لیا ہے میرا رستہ، ورنہ میں
تم پہ وار کے سچ مچ ساری دنیا دینے والی تھی
محبت کی التجا
کہیں کے زخم، کہیں کے شرار رکھتی ہے
مری غزل، میرا لہجہ سنوار رکھتی ہے
سلامِ عقیدت و دعا
ڈاکٹر ایمان قیصرانی کی شخصیت ایک قبیلے کی بیٹی، ایک ماں کی دعا، ایک شاعرہ کا وجدان اور ایک استاد کی روشنی ہے۔ وہ اپنی ذات میں دھرتی کا وقار اور لفظوں کا جادو رکھتی ہیں۔
دعا ہے کہ ان کا قلم ہمیشہ روشن رہے، ان کی شاعری نسلوں کے دلوں کو مہکاتی رہے اور ان کا نام اردو ادب کے آسمان پر ستارے کی طرح ہمیشہ جگمگاتا رہے۔
خدا کرے کہ یہ چراغ ہمیشہ روشن رہے
خدا کرے کہ یہ خوشبو ہمیشہ بکھرتی رہے