ریاست ، ڈیم اور طاقت کی سیاست: اروندھتی راۓ


مضمون مشمولہ (The Guardian)

 خلاصہ سائرہ رباب

بھارت میں سردار سروور ڈیم کے خلاف جدوجہد ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔ ابتدا میں یہ لڑائی محض ایک دریا کے لیے سمجھی جاتی تھی، لیکن جلد ہی یہ ایک بڑے سوال میں بدل گئی: ہماری جمہوریت کی اصل حقیقت کیا ہے؟ زمین کس کی ہے؟ دریا کس کے ہیں؟ جنگلات اور مچھلیاں کس کی ملکیت ہیں؟ یہ محض ماحولیات کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پورے سیاسی و سماجی نظام پر سوالیہ نشان بن گیا۔ ریاست نے ان سوالوں کا جواب اپنے تمام اداروں کے ذریعے ایک ہی آواز میں دیا ... اور وہ جواب بہت واضح، تلخ اور ظالمانہ تھا۔

نہرو کا جنون اور گاندھی کی بصیرت

آزادی کے بعد نہرو نے بڑے ڈیموں کو “جدید بھارت کے مندر” قرار دیا۔ ان کے پیروکاروں نے غیر معمولی جوش سے ڈیم بنانے کو ملک بنانے کے برابر سمجھ لیا۔ لیکن گاندھی ہمیشہ چھوٹے اور مقامی حل پر زور دیتے تھے: چھوٹے کھیت، چھوٹے گاؤں اور ڈھانچے ، مقامی علم و خود مختاری ، کمیونٹی پر مبنی منصوبے ۔ وقت نے ثابت کیا کہ گاندھی کی سوچ زیادہ درست تھی۔ بڑے منصوبوں نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا، زمین اور پانی تباہ کیے اور ماحول کو بگاڑ دیا۔ آج ہمیں پھر اسی "چھوٹے" کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے تاکہ ترقی پائیدار اور سب کے لیے انصاف پر مبنی ہو۔

بھارت کا ڈیموں کا ریکارڈ

نتیجہ یہ ہے کہ بھارت دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ڈیم بنانے والا ملک ہے، جہاں 3600 بڑے ڈیم موجود ہیں اور مزید 1000 زیرِ تعمیر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک پانچواں حصہ یعنی تقریباً 20 کروڑ لوگ آج بھی پینے کے محفوظ پانی سے محروم ہیں، اور دو تہائی یعنی 60 کروڑ کے پاس بنیادی صفائی کی سہولت نہیں۔ 1947 کے مقابلے میں آج بھارت میں زیادہ علاقے قحط اور سیلاب کے خطرے سے دوچار ہیں۔ دنیا بھر میں بڑے ڈیموں کے خلاف تحریکیں بڑھ رہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کئی ڈیم توڑ دیے جا رہے ہیں کیونکہ اب یہ حقیقت تسلیم کی جا چکی ہے کہ بڑے ڈیم فائدے سے زیادہ نقصان دیتے ہیں۔

بڑے ڈیموں کے نقصانات

یہ ڈیم نہ جمہوری ہیں، نہ مقبول۔ یہ حکومتوں کے اختیار بڑھانے کا ہتھیار ہیں۔ یہ کسان کی دانش چھین لیتے ہیں اور پانی، زمین اور آبپاشی غریبوں سے لے کر امیروں کو دے دیتے ہیں۔ ان کے ریزروائر لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیتے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی اپنی جگہ: زمین بنجر، پانی میں نمکیات، سیلاب اور بیماریاں۔ شواہد بڑھ رہے ہیں کہ بڑے ڈیم زلزلوں سے بھی جڑے ہیں۔ “قومی فائدے کے لیے مقامی قربانی” کا جھوٹ اب پوری طرح بے نقاب ہو چکا ہے۔

ترقی یافتہ دنیا کا کچرا

انہی وجوہات کی بنا پر ترقی یافتہ دنیا میں ڈیم انڈسٹری سکڑ گئی ہے (جس کی مالیت سالانہ 12 ارب پاؤنڈ سے زیادہ تھی)۔ اب یہ صنعت ترقی پذیر دنیا کو “ترقیاتی امداد” کے نام پر بھیج دی جاتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے پرانے ہتھیار، بحری جہاز اور زہریلے کیمیکل۔ بھارت کی ہر حکومت اوپر سے تو مغرب پر تنقید کرتی ہے، مگر خوشی خوشی ان کا لپٹا ہوا کچرا قبول کر لیتی ہے۔

بے گھر ہونے والوں کی تعداد

بھارت کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن کے مطابق 54 ڈیموں کے مطالعے میں اوسطاً ہر ڈیم نے 44,182 لوگوں کو بے گھر کیا۔ اگر احتیاطاً اوسط 10,000 فی ڈیم مان لیں تو 3,300 ڈیموں نے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو بے گھر کیا۔ منصوبہ بندی کمیشن کے سیکریٹری این سی سکسینا کے مطابق یہ تعداد 5 کروڑ تک ہے، جن میں سے 4 کروڑ صرف ڈیموں سے متاثر ہوئے۔ یہ تعداد ناقابلِ یقین لگتی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے۔

انسانی المیہ 

پچاس ملین لوگ ۔۔۔۔گجرات کی آبادی سے زیادہ، آسٹریلیا کی آبادی سے تین گنا، تقسیمِ ہند کے مہاجرین سے بھی تین گنا، اور فلسطینی مہاجرین سے دس گنا۔ پھر بھی دنیا خاموش ہے۔ متاثرین کا 60 فیصد قبائلی اور دلت ہیں، حالانکہ بھارت کی کل آبادی میں ان کا حصہ صرف 23 فیصد ہے۔ یوں بھارت کے سب سے غریب لوگ اس کے امیروں کی زندگیوں کو سبسڈی کر رہے ہیں۔

ڈیم اور ترقی کا بیانیہ 

بھارت میں لاکھوں بے گھر لوگ ایک غیر اعلانیہ "ترقیاتی جنگ" کے پناہ گزین ہیں، جسے ہم سب قومی مفاد اور عوامی بھلائی کے نام پر نظرانداز کرتے ہیں۔ بظاہر ترقی اور اناج کی بڑھتی پیداوار کے باوجود کروڑوں لوگ غربت اور بھوک کا شکار ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی اگائی ہوئی خوراک خریدنے کے بھی قابل نہیں۔ ریاست بیرونی طاقتوں سے لڑنے کے لئے طاقت اور ہتھیاروں کو ترجیح دیتی ہے ۔مگر ہمیں خود اپنے آپ سے کون بچائے گا؟ یہ کیسا ملک ہے؟ اس کا مالک کون ہے؟ اس کو کون چلا رہا ہے؟ یہ سب آخر چل کیا رہا ہے؟

سوال یہ ہے کہ آپ ترقی کو کیسے ناپ سکتے ہیں جب آپ کو یہ ہی نہیں پتا کہ اس کی قیمت کیا ہے اور کس نے ادا کی؟ “مارکیٹ” کسی چیز کی قیمت کیسے لگاتی ہے جب وہ اصل پیداوار کی لاگت کو شامل ہی نہیں کرتا؟

ان کروڑوں لوگوں کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ تاریخ میں ان کا ذکر بھی نہیں ہوگا۔ کئی لوگ تین چار بار بے گھر کیے گئے ۔۔ ایک بار ڈیم کے لیے، پھر فوجی میدان، پھر یورینیم کی کان یا پاور پروجیکٹ کے لیے۔ آخرکار یہ سب شہروں کے کنارے جھگیوں میں آ جاتے ہیں، جہاں سستے مزدور بن جاتے ہیں ، وہی مزدور جو مزید منصوبے تعمیر کرتے ہیں اور مزید لوگوں کو بے گھر کرتے ہیں۔ شہروں میں حکومت کے بلڈوزر اور صفائی مہم انہیں جینے نہیں دیتی۔
دہلی جیسے شہروں میں تو وہ اس خطرے میں رہتے ہیں کہ اگر کسی نے انہیں کھلے میں رفع حاجت کرتے دیکھ لیا تو پولیس انہیں گولی مار سکتی ہے۔
 یوں سب سے غریب لوگ سب سے امیروں کی زندگی کو سہارا دینے کے لیے مسلسل قربان ہوتے ہیں، لیکن تاریخ میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔

بحالی کا فریب

حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ دنیا کا بہترین بحالی پیکج دے رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو ٹین کی جھونپڑیوں میں پھینک دیا گیا ہے جو گرمی میں تندور اور سردی میں فریزر ہیں۔ کئی آبادکاری سائٹس بارش کے پانی میں بہہ جاتی ہیں۔ بچوں کی آنکھوں میں خوف اور بخار، بیمار مویشی، ملیریا اور دست۔ اور یہ وہ خوش قسمت ہیں جنہیں سرکاری طور پر “پروجیکٹ افیکٹڈ پرسنز” مانا گیا۔ باقی تو سیدھا بے دخل کر دیے جاتے ہیں۔

بھارت کی ریاست ناکام نہیں بلکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہے: وسائل پر قبضہ کر کے انہیں اشرافیہ میں بانٹ دینا اور پھر سب کچھ خوشنما انداز میں چھپا دینا۔ اصل معلومات بیوروکریٹس اور حکمران طبقات کے پاس مقید ہیں جبکہ عام لوگ لاعلم اور بے بس ہیں۔ یہ جھوٹا بیانیہ پیش کیا جاتا ہے کہ "بھارت اپنے دیہاتوں میں بستا ہے"، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنے دیہاتوں کو روند کر شہروں میں زندہ ہے۔ دیہات صرف شہروں کے غلام اور ان کی خدمت گزار ہیں، اس لیے انہیں بس زندہ رکھنے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔

کیا دو لاکھ لوگوں کو، جن میں سے ایک لاکھ سترہ ہزار قبائلی ہیں، دوبارہ انسانی طریقے سے بسانا ممکن ہے؟ کسی بھی ریاست کے لیے یہ ناممکن ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بچے کے ناخن کاٹنے کے لیے قینچی سے اس کی انگلیاں کاٹ دی جائیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کہاں ہے وہ خالی زرخیز زمین جو ان برادریوں کو دوبارہ بسا سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسی زمین موجود ہی نہیں۔

فاشسٹ ریاضی

200,000 لوگوں کو بے گھر کر کے 40 ملین کو پانی دینا “فاشسٹ ریاضی” ہے۔ یہ کہانیوں کو گلا گھونٹ دیتی ہے اور لوگوں کو جھوٹی بصیرت سے اندھا کر دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 245 دیہاتوں میں سے 30 ڈوبنے والے ہیں۔ لوگ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی زمینیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ سوال یہ نہیں کہ آپ ڈیم کو پسند کرتے ہیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ اس کی قیمت کون ادا کر رہا ہے۔

اروندھتی رائے کی دلیل یہ ہے کہ بڑے ڈیم اور بڑے منصوبے ترقی کا فریب ہیں۔ نہرو کا بڑا سوچنے کا جنون بھارت کو اس نہج پر لے آیا جہاں لاکھوں لوگ بے گھر اور غریب ہوئے۔ گاندھی کی چھوٹی اور مقامی حل والی سوچ ہی آج کی ضرورت ہے۔ ترقی وہی ہے جو مقامی علم، انصاف اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اگر ہم نے بڑے کو ترک کر کے چھوٹے کو اپنانا نہ سیکھا تو مستقبل کی نسلوں کے لیے صرف تباہی بچے گی۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !