آدم بیزار شخص اپنی تخیلاتی دنیا میں ایک مالک کے طور پر کچھ نقشوں پر آزادانہ کام کر رہا ہوتا ہے، اس تنہائی میں وہ بطور خالق خوش یے، آزاد ہے، ہر تکلف سے آزاد ہے، جونہی باہر سے کوئی دوسرا شخص نمودار ہوتا ہے تو آدم بیزار کو اپنے مالکانہ حقوق سے دستبردار ہوتے ہوئے اس آنے والے شخص کی متجسس نگاہ کا غلام بننا پڑتا ہے، اس متجسس نگاہ کے زیرِ اثر ہمیں سماج سے منظور شدہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے، سامنے والے کی توقعات مطابق خود کو ڈھالنا ہے، بیرونی طور پر مسلط خیال کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنانا ہے، سادہ الفاظ میں فرد اپنی فطرت کو پیچھے دھکیل کر سامنے والے کی خوشی کیلئے خود پہ ایک مصنوعی چہرہ چڑھاتا ہے جو کہ نہایت تکلیف دہ امر ہے۔ جب تک انسان تنہائی میں ہے وہ بطور سبجیکٹ ایک آزادی اور خودمختاری محسوس کرتا ہے جونہی تنہائی جاتی رہی تو بطور آبجیکٹ فرد کو تنقیدی رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے تو ایسے میں دوسرے لوگ واقعی جہنم محسوس ہوتے ہیں ۔
سارتر نے اس پرائی نگاہ کو روح تک اترتی ندامت اور وجودی خود بیگانگی سے تعبیر کیا ہے، یہ حادثہ فرد کیلئے گویا کہ وجود کے معنی و مفہوم کا گنوا بیٹھنا ہے، دوسروں کے سامنے مسلسل بناوٹی کردار ادا کرتے ہوئے فرد ایک باطنی کشمکش سے جا ٹکراتا ہے، ہر سماجی تعامل فرد سے ایک نئے چہرے کا مطالبہ کرتا ہے ، اپنا خالص چہرہ صرف تنہائی میں ہی دیکھا جا سکتا ہے ( کوئی ایسا شخص استثناء ہو سکتا ہے جو تمہارے اصلی چہرے تک دسترس رکھتے ہوئے تم سے محبت کرتا ہو مگر یہ آخری منزل ہے جہاں پھر تنہائی اور محفل ایک معنی رکھتے ہیں )، وگرنہ اپنا اصل چہرہ دیکھنے کیلئے بہترین آئینہ تنہائی ہے ۔
اعصابی اضطراب اور ابکیوں کا تعلق پھر آدم بیزار کے رجعتی تخیل سے جڑا ہے جب وہ سامنے والے کا مصنوعی چہرہ دیکھتا ہے، چہرے پہ سجی بناوٹی مسکراہٹ ، پھونک پھونک کر الفاظ کا انتخاب اور وارداتی رویہ یہ جاننے کیلئے کافی ہوتا ہے کہ یہ شخص بس جانوروں کی حد تک ہی زندہ ہے، ورنہ اس کی پوری شخصیت میں اس کا اپنا کچھ نہیں، سماجی تصدیق کیلئے اپنی فطرت کا گلا گھونٹے والا کیسی پستی کا شکار ہوگا ، یہی وہ سوچیں ہیں جنہیں لے کر فرد کو لوگوں سے میل ملاپ ترک کرنا پڑتا ہے کہ یہ سوچیں اس کیلئے جان لیوا حد تک خطرناک ہو سکتی ہیں ۔
لیکن انسانوں کی بڑی تعداد آدم بیزار نہیں اور نہ ہی تنہائی پسند ہے، اس کے پیچھے وجہ جاننا ضروری یے، بیرونی نگاہ کا بھاری پن درحقیقت فرد کی آزادی سے جڑا ہے، فرد فطرتاً آزاد تو ہے اور اس آزادی کو وہ بھرپور طریقے سے خود پہ لاگو کرنا چاہتا ہے ، مگر سماجی اقدار( اچھے یا برے ) فرد کو اس کی شخصی آزادی کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے، یہیں سے تناؤ بڑھتا ہے ، مذید برآں آزادی کا استعمال انتخاب کی اجازت تو دیتا ہے لیکن انتخاب کے نتائج کی زمہ داری سے پھر فرار ممکن نہیں، انتخاب کا دل کرتا یے، نتائج سے ذہن گھبراتا ہے، یہ کشمکش خوف کو جنم دیتی ہے۔
ایک عام ذہن آزادی کے اس تصور سے واقف نہیں چہ جائیکہ اپنی شخصیت پہ اس آزادی کو لاگو کرنے کی سعی کرے، اس لئے وہ ایسی کشمکش کا شکار نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی جائے تو نتائج سے فرار کیلئے اس کے پاس آسان راستہ یہ ہے کہ دوسروں کی طرح خود پہ مصنوعی سماجی چہرہ چڑھا لے ، یعنی کہ بھیڑوں کے ریوڑ میں بھیڑ کی کھال پہن کر گم ہو جائے ۔
آدم بیزاری کا شکار بڑا ذہن ہوتا ہے، یہی مذکورہ بالا دو وجوہات ہیں، ایک یہ کہ اسے شخصی آزادی کے تصور کا پورا احساس ہے اور وہ اسے استعمال بھی کرنا چاہتا ہے کہ اس کے بغیر وہ خود کو مکمل محسوس نہیں کرتا، دوسرا یہ کہ اپنے انتخاب اور انتخاب کے نتائج سے فرار اختیار کرنا وہ پسند نہیں کرتا، اس لئے مصنوعی چہرہ چڑھانے کی بجائے وہ سماج سے کنارہ کش رہتا ہے، کیونکہ جہاں ایک طرف مصنوعی چہرہ اس کی فطری شخصیت کی نفی کرتا ہے اس لئے اسے یہ پسند نہیں، دوسری طرف اس مصنوعی چہرے کے پکڑے جانے پر بڑا ذہن جس شرمندگی سے دوچار ہو سکتا ہے ایک عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
تخلیقی ذہن کو آپ ہمیشہ آدم بیزار اور تنہائی کا شکار پائیں گے، اور یہی وہ ذہن ہے جو محبت کے احساس سے بھی بہتر واقف ہے ، اس نے اپنی تنہائی میں شطرنج کی ایک پوری بساط سجائی ہوتی ہے، ممکن ہے وہ اس تنہائی میں ایک تخیلاتی جھیل کے پانی کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہو اور باہر سے کوئی آ کر اس جھیل میں کنکر مار دے تو اس سے بڑھ کر ایسے فرد کیلئے ذہنی اذیت اور کیا ہو سکتی ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے تخیل میں محبوب کے ساتھ مقدس بارش کے پانیوں سے ایک محبت گاہ تعمیر کر رہا ہو اور کوئی ناہنجار استنجے کے بغیر اس محبت گاہ میں جا گھسے تو ایسے میں فرد کا سر پیٹنا تو بنتا ہے۔ عمومی تصور یہ ہے کہ زندگی میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ سمیٹ سکنے والے لوگ دوسروں سے ملنا پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی ناکامیوں پر طنز یا نصیحت کے در نہ کھول دے ، اس بات میں اگرچہ وزن ہے مگر پھر یہ بھی دیکھا جانا چاہئے کہ اکثر ناکام لوگوں کی فطرت میں کوئی تخلیقی عنصر ضرور موجود ہوگا جس کی بدولت وہ تنہائی پسند واقع ہوئے ہیں ۔
لیکن مکمل آدم بیزار طبیعت کے ساتھ پھر سماج میں گزر بسر کیسے کی جائے ؟ آخر لوگوں سے ملنا ہے، دوستی ، تعلق، رشتہ داری اور کام کاج کیلئے مسلسل لوگوں سے میل جول ناگزیر ہے، یہاں شاپنہاور نے ایک خوبصورت تمثیل پیش کی ہے کہ ایسے رہا جائے جیسے خارپشت (سیہ) نامی جانور رہتا ہے، انہیں زندہ رہنے کیلئے ایک دوسرے کا قرب اور حرارت درکار ہوتی ہے لیکن زیادہ قریب ہوں تو ایک دوسرے کو اپنے کانٹوں سے زخمی کرتے رہتے ہیں، اس لئے زندہ رہنے کیلئے ایک مناسب فاصلے کے ساتھ میل ملاپ رکھا جائے مگر خود کو زخمی ہونے سے بچایا جائے۔
البتہ آدم بیزاری کے اس کربناک جنگل کو پار کرنے کے بعد ، بقول کارل یونگ ، تمہاری تخلیق، تمہاری محبت، تمہاری منزل بانہیں کھولے تمہاری منتظر ہوگی ، جس کے بعد فرد کیلئے ہجوم اور تنہائی میں فرق نہیں رہتا، مگر آدم بیزاروں کی بھاری اکثریت اس جنگل کے دوسری طرف نہیں پہنچ پاتی ، اور اس کی دو وجوہات ہیں، ایک یہ کہ ہمارے ہاں اجتماعی نظام زندگی اور گنجان آبادی کے باعث صحیح معنوں میں تنہائی میسر نہیں آتی ، دوسری وجہ یہ کہ فرد اپنی جلد باز فطرت اور بے صبری کی وجہ سے زمین و آسمان کے باسیوں سے شکوہ شکایت شروع کر دیتا ہے گویا کہ حلوے کی پلیٹ پر مٹی اچھال دی گئی ۔