ابو ریحان البیرونی ایک بہت بڑے مسلمان سائنسدان تھے جو 973ء میں پیدا ہوئے اور 1048ء میں وفات پائی ان کا تعلق خوارزم کے ایک قصبے سے تھا جس کی نسبت سے انہیں "البیرونی" کہا گیا
Al-Biruni was famous as an Iranian scholar, polymath, and astronomer, often called the "Founder of Indology" for his comprehensive study of Indian culture and sciences. He excelled in multiple fields, including mathematics, astronomy, physics, geography, and history, and was one of the first to use modern methods of critical research and experimental science. His key contributions include his detailed work on India, the development of methods for calculating latitude and seasons, and the application of experimental methods in astronomy.
وہ ایک زیرک ریاضی دان تھے جنھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علم فلکیات اور کرونومیٹری کے ذریعے وقت کی پیمائش کرتے گزارا ایک اندازہ کے مطابق البیرونی نے 146کتب تحریر کیں جن کا تعلق فلکیات، اصطرلاب، ریاضی، جغرافیہ، نجوم تقویم، پیمائش، تکونیات، تاریخ، مذہب، فلسفہ، ادب، سحر، تہذیب و تمدن، کیمسٹری اور موسمیات سے ہے البیرونی نے اپنے کچھ حالاتِ زندگی اپنی کتاب ’’تحدید الاماکن ‘‘ میں بیان کیے البیرونی کی جو کتابیں ہم تک پہنچی ہیں ان میں کتاب استخراج الاوتار فی الدائرہ۔
کتاب استیعاب الوجوہ الممکنہ فی صفہ الاسطرلاب۔
کتاب العمل بالاسطرلاب۔
کتاب التطبیق الی حرکہ الشمس۔
کتاب کیفیہ رسوم الہند فی تعلم الحساب۔
کتاب فی تحقیق منازل القمر۔
کتاب جلاء الاذہان فی زیج البتانی۔
کتاب الصیدلہ فی الطب۔
کتاب رؤیہ الاہلہ۔
کتاب جدول التقویم۔
کتاب مفتاح علم الہیئہ۔
کتاب تہذیف فصول الفرغانی۔
کتاب ایضاح الادلہ علی کیفیہ سمت القبلہ۔
کتاب تصور امر الفجر والشفق فی جہہ الشرق والغرب من الافق۔
کتاب التفہیم لاوائل صناعہ التنجیم۔
کتاب المسائل الہندسیہ۔
مقالہ فی تصحیح الطول والعرض لمساکن المعمورہ من الارض شامل ہیں
اُن کی مشہور ترین کتابوں میں ’’کتاب الھند‘‘ اور ’’الآثارالباقیہ‘‘ اور "قانون مسعودی" ہیں زیر نظر یہ دو کتابیں خصوصی طور پر قابل مطالعہ ہیں
’’الآثارالباقیہ‘‘یہ کتاب البیرونی نے جرجان کے حکمران شمس المعالی قابوس بن دشمکیر کے نام پر تحریر کی، اس کا خاص موضوع علم نجوم اور ریاضی تھا لیکن اس میں بہت سے دیگر دلچسپ علمی، تاریخی اور مذہبی و فلسفیانہ باتیں بھی لکھی ہیں اور جگہ جگہ تنقیدی انداز بھی اختیار کیا ہے۔ اس طرح کتاب اس دور کے اہم تاریخی، مذہبی اور علمی مسائل کی ایک تنقیدی تاریخ بن گئی ہے انہوں نے اپنی کتاب "الآثار باقیہ " میں زمین کی گردش کے حوالے سے اپنے نظریات اور مشاہدات کو نوٹ کیا کہ ٹائم کیپنگ کیسے کرسکتے ہیں، یعنی وقت کو کیسے ناپا جاسکتا ہے۔ اسطرح وقت کو ناپنے کے حوالے سے اس نے زمین کی گردش کو وقت سے منسلک کیا۔
کتاب الہند
ہندویات پر عربی زبان میں پہلی شہرہ آفاق کتاب، جس کا پورا نام تحقیق ما للھند من مقولۃ مقبولۃ فی العقل او مرذولۃ ہے۔ یہ کتاب قدیم ہندوستان کی تاریخ، رسوم و رواج اور مذہبی روایات کے ذیل میں صدیوں سے مورخین کا ماخذ رہی ہے اور آج بھی اسے وہی اہمیت حاصل ہے البیرونی نے سال ہا سال تک پنجاب میں مشہور ہندو مراکز کی سیاحت کی، سنسکرت جیسی مشکل زبان سیکھ کر قدیم سنسکرت ادب کا براہ راست خود مطالعہ کیا۔ پھر ہر قسم کی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی معلومات کو، جو اہل ہند کے بارے میں اسے حاصل ہوئيں اس کتاب میں قلم بند کر دیا۔ اس کتاب میں ہندوستانی رسوم و رواج کا یونانی رسوم و رواج سے مقابلہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ساٹھ سے زائد ابواب ہیں جن میں ذاتِ خداوندی، روح، تصوف، جنت، دوزخ، ہندوؤں کی ذاتوں، شادی بیاہ کے قوانین، ادب، اوزان اور پیمائش کی اکائیاں، مروج طرز تحریر، اعداد، قواعد شطرنج ، اوہام اور جغرافیہ کے علاوہ ہندوستان کے مختلف شہروں کے عرض بلد کا بھی ذکر ہے۔اس کے علاوہ ارتقاء کے بارے میں البیرونی نے خاص طور پر کوئی کتاب نہیں لکھی، لیکن "کتاب الہند" میں اس طرح کے موضوعات پر بحث موجود ہے، خاص طور پر فطری ارتقاء اور تبدیلیوں کے بارے میں اس کتاب میں انہوں نے زمین، حیاتیات اور دیگر قدرتی مظاہر کے بارے میں بحث کی ہے، جس میں ارتقاء کا موضوع شامل ہے البیرونی کا یہ خیال تھا کہ انسان بندروں سے ہجرت کرکے وجود میں آئے، جسے جدید نظریہ ارتقاء کے غلط سمجھا جاتا ہے. البیرونی کا خیال تھا کہ انسان جانوروں میں سب سے افضل ہیں اور وہ معدنیات، پودوں اور جانوروں سے افضل ہیں،
"قانون مسعودی" یہ البیرونی کی سب سے ضخیم تصنیف ہے جس کا نام اس نے سلطان محمود عزنوی کے نام پر رکھا ہے۔ پورا نام ہے" کتاب مقالید علم الہیئہ وما یحدث فی بسیط الکرہ" یہ 1030ء میں شائع ہوئی اور ان تمام کتابوں پر سبقت لے گئی جو ریاضی، نجوم، فلکیات، اور سائنسی علوم کے موضوعات پر اس وقت میں لکھی جا چکی تھیں۔ اس کتاب کا علمی مقام بطلیموس کی کتاب المجسطی سے کسی طرح کم نہیں ڈاکٹر ضیاء الدین لکھتے ہیں کہ" البیرونی نے اپنی کتاب قانون مسعودی میں نیوٹن کے ضابطہ خانہ پری Interpolation Formula کو مثلثاتی تفاعل کی قدروں کو ناپنے میں استعمال کیا ہے ، جسے اس نے اپنے جداول جیوب میں ان زاویوں کے لیے دیا ہے جو ۵ دقیقے کے وقفے پر ہیں۔ اس نے اس خانہ پری ضابطے کا ہندسی شہوت بھی دیا ہے یہ برہان ہر تفاعل کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ، جو اصل کے گھٹنے پڑھنے پر گھٹتا یا بڑھتا ہے اس کے علاوہ البیرونی نے جغرافیہ کو سائنسی طور پر سمجھا اور اسے جدید جغرافیہ کی طرف لے کر گئے، جس میں زمین کی گولائی اور گردش جیسے تصورات شامل تھے۔ ان کے کام نے جغرافیہ کی تفہیم کو بہتر بنایا اور جدید جغرافیہ کی بنیاد رکھی اس موضوع پر مولانا ابو الکلام آزاد نے ایک مقالہ لکھا اس مقالے میں انہوں نے جغرافیہ کے شعبے میں البیرونی کی فتوحات کا نہایت شرح و بسط کے ساتھ احاطہ کیا ہے اس مقالہ میں البیرونی کی زندگی اور ان کی تحقیقات سے متعلق بہت کچھ موجود ہے۔ اس میں عربی فن جغرافیہ و تخطیط، ہفت اقلیم، اقلیموں کی مساحت اور کرہ کی مجموعی مساحت، خط استوا اور قوۃ الارض جیسے ۱۲ اہم مضامین جو کہ البیرونی کی تحقیقات ہیں، اس کتاب میں شامل ہیں البیرونی کو وقت یعنی ماضی، حال اور مستقبل سے بے حد لگاؤ تھا اس لیے انہوں نے وقت کی پیمائش، زمین کی حرکت، قبلہ کی سمت کا تعین اور مختلف مقامات کے عرض و بلد اور طول بلد کا حساب لگانے جیسی اہم سائنسی خدمات انجام دیں ان سب کے علاوہ البیرونی کا سب سے مشہور کارنامہ جہلم کے علاقے نندنہ قلعہ میں رہ کر زمین کی پیمائش کرنا ہے یہ پیمائش اس نے افق کا زاویہ معلوم کرنے اور پہاڑی کی بلندی ناپنے کے لیے کی، جس میں اس نے اسطرلاب اور دیگر سادہ آلات استعمال کیے۔ اس حساب سے زمین کا رداس معلوم کیا گیا البیرونی نے نندنہ قلعہ (پنڈ دادنخاں سے 22 کلومیٹر دور) میں کافی وقت گزارا نندانہ کے قلعے کے قریب ایک پہاڑی کی اونچائی ناپی اس کے بعد وہ افق کی پیمائش کے لیے پہاڑی پر چڑھ گئے انھوں نے درست نتائج کے لیے یہ عمل کئی بار دہرایا انھوں نے اسطرلاب نامی آلہ جس میں ایک پروٹیکٹر، دھاگہ اور وزن بھی شامل تھا استعمال کر کے تین زاویے اور ایک فاصلہ ناپا ان پیمائشوں اور حسابات کی مدد سے اس نے زمین کا رداس معلوم کیا آج ناسا اپنے خلائی سیارے اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے زمین کا ریڈیئس 6371 کلومیٹر بتا تاہے، جو ابو ریحان البیرونی نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل حیرت انگیز درستگی کےساتھ ناپ لیا تھا، جو کہ 6335 کلومیٹربنتا ہےمثلثی اور الجبری مساوات کا استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے 3928.77 انگریزی میل کے برابر زمین کے رداس Radius of Earth کی قدر حاصل کی، جو کہ زمین کے آج کے رداس کے تقریباً 99 فیصد کےقریب ہے اپنے اس حساب کی بنیاد پراور دیگر کئی مشاہدات کی بنا پر البیرونی نے زمین کے سورج کے گرد گھومنے کے امکان کے بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیا حالانکہ اس خیال کو اس وقت کے مختلف پولی میتھس polymaths نے نظر انداز کر دیا تھا اِنسانی زندگی کی قدیم تاریخ میں سورج کو بالعموم زمین کے گرد محوِگردش خیال کیا جاتا تھا۔ فیثا غورث نے تاریخِ علوم میں پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین سورج کے گرد گردِش کرتی ہے۔ بعد ازاں کوپر نیکس اور گیلیلو سے پہلے ایک نامور مسلمان سائنسدان ’زرقالی‘ نے بھی 1080ء میں زمین کی سورج کے گرد گردِش کا نظریہ پیش کی۔ لیکن اسی دوران کچھ 70، 80 سال پہلے ، البیرونی بھی اپنی تحقیق کے زریعے اسی نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ زمین ، سورج کے گردش محو گردش ہے ، ہرگز ایک ساکن حالت میں نہیں البیرونی کو اپنی منطق اور جبلت کے بارے میں اتنا یقین تھا کہ انہوں نے سورج، اس کی حرکات اور چاند گرہن کے بارے میں بڑے پیمانے پر لکھا، ساتھ میں زمین کے سورج کے گرد حرکات کے بارے میں اپنے واضح دلائل بھی دیے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے بہت سے فلکیاتی آلات ایجاد کیے، اور بتایا کہ کس طرح زمین ایک محور پر گھومتی ہے، عرض البلد اور طول البلد کا درست حساب لگایا اور انکے کسی جگہ کے حوالے سے معلوم کرنے کا طریقہ دیافت کیا اس کے علاوہ ان کی دریافتوں کی فہرست خاصی طویل ہے، انہوں نے نوعیتی وزن متعین کرنے کا طریقہ دریافت کیا، زاویہ کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا، نظری اور عملی طور پر مائع پر دباؤ اور ان کے توازن پر ریسرچ کی، انہوں نے بتایا کہ فواروں کا پانی نیچے سے اوپر کس طرح جاتا ہے، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایک دوسرے سے متصل مختلف الاشکال برتنوں میں پانی اپنی سطح کیونکر برقرار رکھتا ہے، انہوں نے محیطِ ارض نکالنے کا نظریہ وضع کیا اس کے علاوہ اٹھارہ جواہر اور دھاتوں کی کثافت اضافی کی صحیح صحیح قدروں کی دریافت بھی البیرونی نے کی ہے اور معرفت جواہر کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے ۔ اسی طرح قدرتی چشموں اور مصنوعی زیر زمین چشمون (Artesian Wells) سے پانی کے اپنے آپ او پر ابھر آنے کی توجیہ آج کل کے مائی سکونیات (Hydrosatics) اصولوں پر کرنا اس کا کام ہے۔ خرق عادت تولید کا مسئلہ ، جس میں سیاسی توام (Siami's twins) کا مسئلہ بھی شامل ہے ، اس کا بیان کردہ ہے۔ پھول کی پتھریوں کا شمار ے یا ۳، ۴، ۵ ، ۶ یا اٹھارہ نہونا اور کبھی ۔ یا نہ ہونا اس کا مشاہدہ ہے۔ دریائے سندھ کے طاس کا کسی زمانے میں زیر آپ ہو نا اور زمانہ مابعد میں اس کا مٹی اور رینگ سے پر ہو کر زرخیز میدانوں میں تبدیل ہو جانا اس کی دریافت ہے۔ مختصر یہ کہ جرمن مؤرخ، میکس میئر ہاف , Max Meyerhoff کے مطابق، البیرونی عالمگیر طور پر قابل احترام مسلم اسکالرز میں سب سے نمایاں شخصیت ہیں اور جن کی متعدد مختلف شعبوں میں خدمات نے انہیں "الاستاد" کا خطاب دیا 1973ء میں سویت یونین ( روس) نے البیرونی کی سائنسی خدمات کے اعتراف میں ایک ڈاک ٹکٹ کا اجراء کیا تھا جب کہ البیرونی نے فلکیات کے بارے میں جو اہم کام کیے ان کے اعتراف میں چاند پر ایک گڑھے کو"البیرونی کریٹر" کا نام دیا گیا ہے اس کے علاوہ 1974ء میں Unesco یونسیکو نے البیرونی کے بارے میں اپنے میگزین Unesco Courier کا ایک خصوصی شمارہ شائع کیا جس کے سر ورق پر لکھا کہ
Al-Biruni, a universal genius in Central Asia a thousand years ago: astronomer, historian, botanist, pharmacologist, geologist, poet, philosopher, mathematician, geographer, humanist