انسان عظیم ہے خدایا۔۔ منظر حسین اختر

احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کا ایک اور رخ
احمد ندیم قاسمی اردو ادب کا وہ درخشاں نام ہیں جن کی عظمت صرف ان کی شاعری، افسانہ نگاری یا ادارت تک محدود نہیں بلکہ ان کی شخصیت کی سب سے روشن جہت ان کی انسان دوستی اور خلوص تھا۔ وہ جس قدر بڑے شاعر، افسانہ نگار اور ادیب تھے، اتنے ہی بڑے انسان بھی تھے۔ ادب کے ساتھ ان کی محبت اور اخلاص کا یہ عالم تھا کہ وہ مجلس ترقیِ ادب جیسے ادارے میں برسوں تک انتہائی معمولی تنخواہ پر بطور ڈائریکٹر خدمات انجام دیتے رہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ان کی ماہانہ تنخواہ ان کے ڈرائیور غفار جعفری کے برابر ہو گئی—آٹھ ہزار روپے! مگر قاسمی صاحب نے کبھی اس پر کوئی گلہ نہیں کیا۔ وہ شام کے بعد بھی اگر غفار کو ساتھ رکھتے تو اس کی علیحدہ تنخواہ اپنی جیب سے دیتے۔ یہ ان کے اصول پسندی اور شفاف کردار کا اعلیٰ ترین مظہر تھا۔ وہ کہا کرتے تھے: “اصول وہ چراغ ہے جو اگر ایک بار بجھ جائے تو انسان خود اپنے اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔”

ان کے ساتھ کام کرنے والے دفتری اسٹاف میں غفار اور ارشاد نمایاں ہیں۔ غفار بطور ڈرائیور اور ارشاد بطور آفس بوائے تین سے چار دہائیوں تک ان کے ساتھ وابستہ رہے ۔ مگر قاسمی صاحب کا ان سے برتاؤ کبھی افسر اور ماتحت کا نہیں رہا، بلکہ ایک شفیق بزرگ اور دوست کا سا تھا۔ وہ ان کے لیے رہنما بھی تھے اور سایہ بھی۔ ارشاد اور غفار آج بھی اس محبت اور قربت کو یاد کرتے ہیں جو قاسمی صاحب نے انہیں عطا کی۔ ان کا کہنا ہے کہ “قاسمی صاحب کے ساتھ وقت گزارنا گویا ایک درسِ اخلاق اور محبت کی محفل میں بیٹھنے کے مترادف تھا۔” واقعی، بڑے لوگ وہ نہیں ہوتے جن کے پاس دولت یا عہدہ ہو، بلکہ وہ ہوتے ہیں جن کے پاس دل کی وسعت اور کردار کی روشنی ہو۔ جیسا کہ انگریز مفکر رالف والڈو ایمرسن نے کہا تھا:
 “The great man is he who does not lose his child’s heart.”
(بڑا آدمی وہ ہے جو اپنی معصومیت اور خلوص کو کبھی نہیں کھوتا۔)
ایک اور بات جس کا ذکر انتہائی ضروری سمجھتا ہوں کہ قاسمی صاحب اپنی عمر کے اخری حصے میں سانس کی عارضے میں مبتلا ہو گئے اور اکثر انہیں ہسپتال جانا پڑتا 
ارشاد اور غفار یہ دونوں ہسپتالوں میں ان کے ساتھ اس طرح رہے جس طرح شاید حقیقی اولاد بھی خدمت نہ کر سکے وہ دن رات ایک کر کے ان کے ساتھ رہتے اور کسی بھی طرح کی کوئی کوتاہی نہ ہوتی اور اس تمام عرصے میں ان پر گھبراہٹ طاری رہتی اور وہ تب پرسکون ہوتے جب قاسمی صاحب صحت یاب ہو کر واپس گھر ا جاتے اور وہی دفتری معمول دوبارہ شروع ہو جاتا 
قاسمی صاحب کے ساتھ وقت گزارنا لوگوں کو ایک ایسا سکون دیتا تھا
جس کے سبب لوگوں کو کار سخن ہی سب سے اہم لگتا اس طرح یہ رفاقت دنیاوی الائشوں سے بہت سے لوگوں کو دور رکھنے میں معاون ثابت ہوتی  
قاسمی صاحب کے دفتری ماحول میں ایک روحانی سا سکون ہوتا تھا۔ دوپہر کے کھانے میں وہ سب کے لیے یکساں اہتمام کرتے۔ دفتر آنے والے مہمانوں کے لیے بھی دسترخوان کھلا رہتا، اور قاسمی صاحب اس بات پر اصرار کرتے کہ سب ایک ساتھ بیٹھیں، بغیر امتیاز کے۔ یہ ان کے اندر کی وہ سادگی تھی جس کے بارے میں لیو ٹالسٹائی نے کہا تھا:
 “There is nothing more noble than being simple, kind, and truthful.”
(سادگی، مہربانی اور سچائی سے بڑھ کر کوئی شرافت نہیں۔)

اعجاز رضوی قاسمی صاحب کے ساتھ بطور مدیرِ معاون فنون میں شامل ہوئے اور جلد ہی رسالے کے تمام انتظامی، ادبی اور تخلیقی امور ان کے سپرد ہو گئے۔ فنون کی اشاعت، خطوط، ڈاک اور چھپنے والے تمام تخلیقی مواد کی نگرانی وہی کرتے تھے ۔ لیکن یہ تعلق محض پیشہ ورانہ نہ رہا—یہ محبت، عقیدت اور انسانی وابستگی کا استعارہ بن گیا۔ رضوی صاحب آج بھی کہتے ہیں کہ “قاسمی صاحب کے ساتھ میرا تعلق فنون سے زیادہ دل کا تعلق تھا۔ وہ بڑے تھے مگر کبھی بڑے بن کر نہیں رہے، ہمیشہ قریب، ہمیشہ مسکراتے ہوئے۔” قاسمی صاحب کے اخلاق اور محبت کا یہی جادو تھا جس نے سب کو گرویدہ بنا رکھا تھا۔

جب قاسمی صاحب شدید علیل ہوئے تو اعجاز رضوی اسلام آباد میں تھے۔ خبر ملتے ہی وہ لاہور واپس آئے۔ یہی وہ آخری ملاقات تھی جس میں قاسمی صاحب نے مسکرا کر ان سے بات کی۔ وہ جاتے ہوئے یعنی آئی سی یو کی طرف لے جائے جا رہے تھے، مگر ان کے چہرے پر خوف یا گھبراہٹ نہیں، ایک پُرسکون تبسم تھا۔ انہوں نے ہاتھ ہلا کر رضوی صاحب کو دیکھا، اور وہ لمحہ گویا زندگی اور محبت کے مابین ایک خوبصورت پل بن گیا۔ ایک آخری مکالمہ ،
البیر کامو کے الفاظ میں:

“In the midst of winter, I found there was within me an invincible summer.”
(سردیوں کے بیچ میں میں نے اپنے اندر ایک ناقابلِ شکست موسمِ گرما پایا۔)
قاسمی صاحب کی مسکراہٹ میں بھی وہی اندرونی گرمی، وہی حوصلہ، وہی ابدی سکون تھا۔
قاسمی صاحب کی غزل کا مصرع ہے 
روز اول سے بندھا رکھا ہے بستر اپنا
قاسمی صاحب کے ساتھ جڑے ہر فرد کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ ہی ان کو سب سے زیادہ عزیز ہیں—اور یہی ایک بڑے انسان کی پہچان ہے۔ ان کے اخلاق، محبت اور تربیت نے غفار،اور ارشاد اور دیگر دفتری عملے کے لوگوں کو نہ صرف عملی نظم و ضبط سکھایا بلکہ انسان دوستی کا درس بھی دیا۔ جیسا کہ ٹامس کارلائل نے کہا تھا:
 “A great man shows his greatness by the way he treats little men.”
(ایک بڑے آدمی کی عظمت اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ کمزوروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے۔)
قاسمی صاحب کی زندگی اس قول کی عملی تفسیر تھی۔

ان کی تخلیقی میراث بھی انہی صفات کا تسلسل ہے۔ ان کے افسانے “سناٹا” اور “دار و رسن” انسان کے باطن کے سناٹے، خوف اور سچائی کی گہری تصویریں ہیں، جبکہ نظم “ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار” فن کے تقدس اور انسان کے خلوصِ نیت کا استعارہ ہے۔ اور ان کی شہرۂ آفاق نظم “خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو” ان کی وطن دوستی، امید اور روحانی تطہیر کا اعلامیہ ہے۔

احمد ندیم قاسمی کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ادب صرف لفظوں کا فن نہیں، بلکہ کردار کا حسن ہے۔ وہ خود ایک زندہ کتاب تھے، جس کے ہر صفحے پر خلوص، محبت اور اصول کی تحریر ثبت تھی۔ ان کے بعد ان کے قریبی رفیق—غفار، اور ارشاد،
 اور ان کے ادبی ہم سفر اعجاز رضوی— جو انہیں سگے بیٹوں کی طرح عزیز تھے جو محض رسالہ فنون میں ان کے شریک کار نہ تھے بلکہ ان کے دست و بازو بھی تھے قاسمی صاحب کا رضوی صاحب سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی بنا پر ملاقات نہ ہو پاتی تو باقاعدہ فون کر کے بلا لیتے اور اگر کہیں کسی بھی موقع پر ان کو کسی قسم کی رنجش کا یا ناراضی کا احساس ہوتا تو پاس بلا کر خود منا لیتے 
 قاسمی صاحب کے دفتر میں ان کے ساتھ کام کرنے والے ملازمین ہوں ان کے ادبی ہمسفر ہوں یا معاونین یہ سب ان کی محبت کے امین ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ان کے ساتھ عمر گزاری بلکہ ان کی یاد کو اپنے خلوص، وفاداری اور ادب سے وابستگی کے ذریعے زندہ رکھا ہے۔
جیسا کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا:
 “Death is not extinguishing the light; it is only putting out the lamp because the dawn has come.”
(موت روشنی کو بجھانا نہیں، بلکہ چراغ کو بجھا دینا ہے کیونکہ صبح طلوع ہو چکی ہے۔)
احمد ندیم قاسمی کی روشنی بجھی نہیں—وہ اپنے کردار، اپنی تحریروں اور اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں آج بھی روشن ہے۔
قاسمی صاحب کے حوالے سے ایک طویل مضمون مجھ پر قرض ہے ان کے حوالے سے جو کچھ بھی میں نے اب تک لکھا ہے وہ کم ہے وہ اتنے بڑے انسان ہیں کہ ان کے لیے دفتر ترتیب دیے جا سکتے ہیں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ مجھے زندگی میں بہت بڑے بڑے لوگوں سے ملنے کا اعزاز حاصل ہوا یقینا بڑے لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے زیادہ تر تو عام روزمرہ کی طرح کے لوگ ہوتے ہیں جن سے مل کر زیادہ تر مایوسی ہوتی ہے اور اگر کچھ سے مل کر مایوسی نہ بھی ہو تو خوشی نہیں ہوتی یا وہ اپ پر اپنا کوئی ایسا تاثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوتے جناب احمد ندیم قاسمی سے سے ملنا گویا ان کے حصار میں انا تھا
انشاءاللہ ان تمام یادوں کو ایک طویل مضمون میں اپ کے ساتھ شیئر کروں گا اج صبح برادر عزیز غفار کا فون اگیا اور طویل گفتگو ہوئی اور مسلسل قاسمی صاحب کا ذکر ہوتا رہا میرے والد محترم جناب اختر حسین جعفری صاحب کا ذکر ہوتا رہا جناب خالد احمد اور جناب نجیب احمد کا ذکر ہوتا رہا اور دیگر بزرگوں کی باتیں ہوتی رہیں تو غفار کی قاسمی صاحب کے ساتھ وابستگی اور ارشاد کی خدمات یاد اگئیں تو خیال ایا کہ گمنام سپاہیوں کا ذکر کوئی نہیں کرتا ان کا ذکر کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جنہوں نے محبت اور وفا کے محاذ پر اپنے عہد نبھائے ہوں اور قربانیاں دی ہوں
اخر میں جناب اختر حسین جعفری صاحب کے مضمون سے ایک اقتباس درج کرتا ہوں
** اسمان سخن کی روشنی میں ان نحیف و نزار ستاروں کی روشنی بھی شامل ہوتی ہے جو سال ہا سال اپنی موجودگی کا احساس دلائے بغیر اسمان کو روشن کرتے رہتے ہیں مگر ان کی چمک اکثر نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے ***
قاسمی صاحب کے دفتر کے ملازمین ہوں ان کے احباب ہوں یا ان کے ادبی ہمسفر ہوں قاسمی صاحب ان کا اثاثہ تھے اور وہ لوگ قاسمی صاحب کی حقیقی دولت اور خزانہ 
یقینا ہر عہد میں بڑے شاعر اور ادیب ہوتے ہیں مگر ایسی بھرپور تخلیقی اور ادبی فضا اور ایسے بڑے شاعر اور ادیب ایک ہی وقت اور ایک ہی عہد میں شاید اردو ادب کو کبھی میسر نہ آ سکیں 
میں سمجھتا ہوں اور صدق دل سے مانتا ہوں کہ وہ لوگ خوش نصیب ہیں جنہوں نے احمد ندیم قاسمی اختر حسین جعفری حفیظ تائب ، خالد احمد نجیب احمد منیر نیازی منو بھائی اور ایسے بہت سے شاعروں ادیبوں اور تخلیق کاروں سے ملاقات کی ہے اور ان کو ایک عہد میں دیکھا ہے

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !