کہیں ایسا نہ ہو جائے۔۔آسیہ عمران

    اس کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔سمجھ نہیں آتا تھا وہ کیا کرے۔ پورے گھر والوں کو ہدایات جاری کر تی گویا ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔ کچھ ایسا نہ ہو جائے، کچھ  ویسا نہ ہو جائے۔ خدشات اسے گھیر رہے تھے۔ اس نے آج بڑی محبت سے لہجے میں شیرینی سموئے بچوں سے کہا تھا آپ نے نگاہیں جھکائے مؤدب ہو کر مہمانوں کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہنا ہے اور مستقل درود پڑھتے رہنا ہے۔ وہ کھانا بناتے ہوئے بھی  بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور درود شریف پڑھتی رہی تھی۔بار بار اپنے لباس پر نگاہ دوڑاتی مناسب ہے بھی یا نہیں؟ حیا کے تقاضوں سے انحراف تو نہیں کر رہا۔ چادر کو ٹٹولتی کہیں زینت ظاہر نہ ہو رہی ہو۔  جب سے خبر ملی تھی وہ سو نہیں پائی تھی۔ اس نے معمول کے برخلاف بچوں کو تنبیہ کے بجائے درخواست کی تھی۔ فجر کے بعد تلاوتِ کر کے کام کرنا، سونا نہیں  مجھے شرمندگی ہوگی کہ انھوں نے فجر کی برکتوں کا بتایا ہے۔  فجر کے بعد سونا رزق کی تنگی کا موجب بتایا ہے۔ صبح ہی صبح اپنے گھر کے سامنے سے صفائی کرتے بیٹے سے کہا تھا بیٹا پوری گلی دیکھ لینا کہ انھوں نے پڑوسیوں کے حقوق کی انتہائی تاکید کی ہے آپکی تھوڑی  سی محنت بھی  انھیں خوش کرے گی۔

             پہلے سوال حقوق العباد کا ہوگا حقوق اللہ تو شاید معاف کر دیے جائیں بندوں کے حقوق بندوں کے معاف کرنے سے مشروط ہونگے۔ آج اس کے دماغ کے سارے بلب جیسے روشن ہوتے جا رہے تھے۔سارے تقاضے جیسے آج ہی معلوم ہو?ئے ہوں۔ وہ پوزیشن ہولڈر تھی باقی مضامین کے ساتھ اس نے اسلامیات کو بھی بہت اچھا پڑھا تھا۔ یکدم ایک خیال کے آتے ہی وہ چادر لئے باہر نکل گئیں۔پڑوسن سے محبت سے ملیں منجوس کا نازک سا بریسلٹ اپنی کلائی سے اتار کر اسے پہنا دیا۔کہا آج سے تم میری چھوٹی بہن ہو۔وہ حیران ہوتے استفسار کرنے لگی معاملہ کیا ہے؟ جواباً آنکھیں آنسوؤں سے چمک اٹھیں۔وہ اسے بتا نہیں سکتی تھیں کہ معاملہ کیا ہے۔ اس نے گزشتہ ہفتے ہی دوسری پڑوسن سے اسکی برائیاں کی تھیں۔ بس مجھے معاف کر دینا دل میں میل نہ رکھنا۔یاد رکھنا تمھاری ایک بہن تمھارے پڑوس میں ہے۔جاتے جاتے وہ مٹھائی کی پلیٹ ساتھ لیتی گئی تھیں۔آج اتنی مصروفیت کے باوجود انھوں نے کسی کو ڈانٹا نہ تھا کہ وہ بچوں سے شفقت اور محبت کرنے والے تھے ۔ انھوں نے بتایا تھا کہ کسی کی بھی عزت نفس پر حملہ بہت بڑا گناہ ہے۔

            گھر لوٹی تو نیا خیال آیا اس نے بیٹیوں،نندوں،بھابھیوں،بھتیجیوں کو فون کر کے آنے کا اصرار کیا کہ سب شام کا کھانا میری طرف کھائیںاور بتایا کہ ایک سرپرائز ہے۔سب حیران اور وہ سوچ رہی تھیں میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹیوں سے محبت کرنے والے تھے۔ایک خیال کے آتے ہی اسٹور کی طرف دوڑیں۔ٹرنک میں سے نئے سوٹ نکالے۔ بیٹے کو فون کیا گفٹ بیگز لیتے آ?نا۔ کچھ حساب کتاب کرکے کلر باکس اور پین بھی منگوا لیے۔ انھیں کسی کو خالی ہاتھ بھیجنا پسند نہ تھا۔یقینا اس عمل سے خوش ہونگے۔  مہمانوں کی تو ویسے بھی انتہائی تکریم کرنے والے تھے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے ہی اس نے گھر سے کئی چیزوں کو نکالنا شروع کیا  تھا۔جن کے متعلق اس کا گمان تھا کہ انھیں ناپسند ہونگی۔چند جوڑے سوٹ رکھ کر باقی پیک کر کے کئی گھروں میں بھجوا?ئے تھے۔  ضرورت سے زائد کمبل کھیس نکال کر ساتھ کی کچی بستی میں بچوں کے ہاتھ بھجوائے تھے۔ بچے خوش بھی اور حیران بھی کہ انھیں انوکھی سرگرمی ہاتھ آئی تھی۔ ان کاموں کے دوران اس کے ماضی کی جیسے ایک فلم سی چل رہی تھی۔وہ زبان کی بہت کڑوی ہو ا کرتی تھی بات کرتی تو جیسا ہتھوڑا لگتا۔اسکی مروت و مودت نام نہاد اعتماد کے پرچم تلے دب گئی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے ہی پارک میں اسے کچھ اچھی سہیلیاں مل گئیں۔اسے پتہ ہی نہ چلا کب وہ ان کے ساتھ مختلف پروگرامات میں جانا شروع ہو گئیں۔ اب  انھیں ماضی کی سبھی غلطیوں کا ازالہ کرنا  تھااور وقت جیسے بہت کم تھا۔

            وہ بے طرح خوش تھی اس نے دل کی گہرائی سے رب سے اچھے اخلاق چاہے ، حیا ، مروت، مودت، اخلاص، کردار اور پاکیزگی مانگی۔کچھ کاموں کی فہرست بنائی جسے اس نے ایک سال کے دوران کرنا تھا۔ زندگی بھر کی میل کچیل صاف کرنا آسان بھی تو نہ تھالیکن وہ پر عزم تھی۔ایک خیال کے آتے ہی وہ کانپ گئی۔ اوہ میرے خدا یہ کیا ہو گیا مجھ سے گھر کے مرکز رحمت اور سبب برکت سے غفلت کیسے ہوگئی۔  یہ خیال تو اسے سب سے پہلے آنا چاہیے تھا۔ شوہر کو جیٹھ کے ہاں پہنچنے کو کہا ساسو ماں کو بڑی منتوں سے معافی تلافی سے ساتھ لے آئی۔  انھیں نئی چادر تخت پر بچھا کر دی، احترام اور محبت سے ہاتھ چومے تو جیسے سرشاری رگ وپے میں اتر گئی۔ کرنے کے کاموں کی بہتات تھی۔ سب مہمان پہنچنے کو تھے اس نے تاکید کی تھی سب تیار ہو کر آئیں۔ مردوں عورتوں کے بیٹھنے کی جگہ الگ الگ تھی۔ مائیک کی سیٹنگ مردوں کی طرف تھی کہ بہت کچھ اس نے سہیلیوں سے لاشعوری طور پر سیکھ لیا تھا۔ ''سیرت رسول'' پر لیکچر تھا۔اسے تیاری میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا خیال تو رکھنا تھا اور اس کی اسلامیات پر کی گئی محنت دراصل آج کام آرہی تھی۔

              شاید انقلاب کا کوئی خاص لمحہ ہوتا ہے۔ اس کے لئے وہ ''لمحہ'' تھا جب فاطمہ باجی نے میٹنگ کے دوران کہا اس دفعہ سیرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اجتماع آمنہ کے گھر ہوگا۔ وہ کتنے ہی لمحے بول نہ پائی تھی۔ کہاں میں اور کہاں یہ سعادت؟ میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو جاننے کے لیے لوگ میرے گھر کا رخ کریں گے۔ فرشتے تہہ بہ تہہ آسمانوں تک اس محفل پر چھائے ہوں گے۔ اس کے گھر میں رحمتوں اور برکتوں کی برسات اترے گی ۔ وہ اس قابل کہاں تھی جانتے بوجھتے غفلت میں اس نے عمر بتا دی تھی۔اس لمحہ اسے لگا وہ اندر سے یکسر بدل گئی ہے۔ یہی آگہی کا لمحہ تھا۔ وہ رب کے کرم سے نوازی جا رہی تھی۔

            آسمانوں پر اس کے بدلاؤ کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔ زندگی کی سب سے بڑی  سعادت یہی تو تھی۔ یہ رب کاکرم تھا تو آگے کوشش اور قدر اس کے ذمہ تھی۔ کئی نیک کاموں کی شروعات بھی اسی روز سے کرنا چاہتی تھی۔ کتنی غلط بات ہوتی کہ شان مصطفیٰ،حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ ہوتا اور گھر میں اس کے مخالف تصویر ہوتی۔ وہ بے طرح نوازی گئی تھی اور اس نے مقدور بھر کوشش بھی کر ڈالی تھی۔ مولانا صاحب نے کیا فرمایا اسے اتنا پتہ تھا کہ آج وہ ایک مختلف دنیا میں محو سفر تھی ، بے حد انوکھی سی دنیا میں۔اس کا دل پکاررہا تھا۔میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر میرا سب کچھ قربان۔میری جان،میرا مال، میرے بچے، میرے ماں،باپ۔میرا خاندان میرا آج میرا کل۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !