ہر معالج ڈاکٹر اور ہر ڈاکٹر معالج نہیں ہوتا
ڈاکٹر (علمی ڈگری) اور معالج (بطور پیشہ) کے درمیان ایک واضح اور بنیادی فرق ہے، ہمارے ہاں ایک اعلی ڈگری اور عوامی پیشہ کو خلط ملط کیا گیا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس خطاب کو سماجی رتبے کی حصول کے لیے بطور خاص استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہ ”مفتی“ لفظ کا مذہبی اعتبار سے غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
آپ اپنے ارد گرد سب سے پہلے دیکھ لیں، میڈیکل کالج کے بہت سے فارغ التحصیل، چاہے وہ صرف بیچلرز کی ڈگری ہی کیوں نہ رکھتے ہوں، بعض اوقات بالتصریح یا خاموش طریقے سے یہ اصرار کرتے ہیں کہ انہیں ”ڈاکٹر“ کے خطاب سے ہی پکارا جائے۔ اور یہ معاملہ جنون کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے جب وہ ملاقاتوں میں، نہ صرف کام کی جگہ پر بلکہ غیر رسمی ملاقاتوں میں بھی، اپنے ناموں سے پہلے یہ خطاب لگا کر ایک دوسرے کو پکارتے ہیں، حالانکہ وہ تو سرے سے ڈاکٹر ہوتے ہی نہیں ، غلط فہمی اور خوش فہمی میں ہی یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے، گویا یہ خطاب انہیں کوئی سماجی مقام یا خاص وقار عطا کرتا ہے۔
میں نے کچھ نوجوانوں سے ایک مجلس میں یہی کچھ کہا اور انہیں نرمی سے یاد دلایا کہ آپ صرف بیچلرز کی ڈگری رکھتے ہیں، اور اس طرح ”ڈاکٹر“ کا خطاب استعمال کرنا علمی دھوکہ دہی ہے، کیونکہ آپ صرف ”طبیب“ اور ”معالج“ ہیں۔ معاملہ نوکری یا پیشے کا نہیں، بلکہ اس علمی ڈگری کا ہے جو آپ نے حاصل کی ہے۔ ان میں سے کچھ خفا ہوئے، معاملہ بالکل وہی ہوا جیسے کہ ہم نے لفظ ”مفتی“ کے پرائیویٹ طور پر غلط استعمال سے مولویوں کو منع کیا تھا، وہ لٹھ لیکر ہمارے ہی پیچھے پڑ گئے، ظاہر ہے ان کے مفروضہ سماجی رتبے پر اس سے زیادہ خطرناک حملے کا تصور ہی کوئی نہیں کر سکتا۔ (یاد رہے ”مفتی“ کا منصب مسلم دور حکمرانی میں عدالت کے اندر ایک سرکاری پوسٹ کا ہے، جس کے جگہے پر آج کل کے عدالتی سسٹم میں پراسکیوٹر، ایڈووکیٹ جنرل اور اٹارنی جنرل وغیرہ کام کر رہے ہیں، مفتی کا کام ہوتا تھا قاضی کا ہاتھ بٹانا، جیسے آج کل سرکاری وکیل جج کا ہاتھ بٹاتا ہے اور کام آسان کرتا ہے۔ اس منصب کو پرائیویٹ طور پر استعمال کرنا بالکل غلط اور بے بنیاد معاملہ ہے جس میں قبل ازیں میں نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔)
لیکن بدقسمتی سے، ہماری اس پسماندہ سماج میں ڈاکٹر اور مفتی کے یہ اعزازات و خطابات اب علمی ڈگری سے بڑھ کر معاشرتی رتبے بن گئے ہیں، اور بعض لوگ اس پر اصرار کرنے لگے ہیں کہ انہیں مطلق نام کی بجائے ان خطابات کے ذریعے مخاطب کر کے پکارا جائے، گویا یہ احساس کمتری یا خود اعتمادی کی کمی کا ازالہ کر رہا ہو، اور بعض اوقات یہ تکبر یا غرور کی علامت بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر لفظ کے ساتھ سب سے بڑا اور دگنا ظلم یہ ہوتا ہے جب کوئی مولوی اسے اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ ظالم ہے وہ پھر خود کو مولوی نہیں بلکہ علامہ لکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کا غرور اور گھمنڈ پھر آسمان کو چھو جاتا ہے۔ یہ ”ڈاکٹر“ لفظ کے ساتھ سب سے بدترین ظلم کی شکل ہے۔
معاملہ اس وقت اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے جب یہ ڈاکٹریٹ کے حامل یونیورسٹی کے اکادمیکس کے ”ڈاکٹر“ کے خطاب کی بات آتی ہے، جو ہر جگہ، یہاں تک کہ شادی کی دعوتوں یا سوشل میڈیا پر بھی، اپنے نام کے ساتھ Dr لگانے پر اصرار کرتے ہیں، گویا یہ خطاب ان کی پہچان کا ایک ایسا حصہ بن گیا ہے جو ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اور سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خطاب ایک خاندانی فرض بن جاتا ہے، جہاں گھر میں کسی کو صرف 'ڈاکٹر' یا 'مفتی' کہہ کر پکارا جاتا ہے، اور بیوی اور بچوں پر یہ واجب ہو جاتا ہے کہ وہ اس کا احترام کریں، گویا ڈاکٹریٹ یا مفتی ہونے کا رتبہ اسے ایسے مراعات دیتا ہے جو دنیا کی کسی اور ثقافت میں موجود نہیں ہیں۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے مغرب کے مشہور مصنفین اور فلسفی اپنی کتابوں، لیکچرز یا کارڈز پر 'Dr' لگانے پر اصرار نہیں کرتے، حالانکہ یہ لفظ وہاں سے ہی ہمارے ہاں در آیا ہے لیکن یہ رسمِ بد صرف یہاں رائج ہے، یہی حال مفتی لفظ کے استعمال کا ہے، مسلم دور حکمرانی کا مرکز عرب، ترکی رہے ہیں، وہاں یہ لفظ آج بھی پرائیویٹ طور پر کوئی استعمال نہیں کرتا جب کہ ہمارے ہاں ہر ایک پتھر اٹھانے سے تین چار مفتی اس کے نیچے سے نکلتا ہوا نظر آئیں گے۔
اپنی بنیاد میں، ڈاکٹریٹ ایک علمی ڈگری ہے جس کی قدر و قیمت صرف درس گاہوں اور تحقیقی ہالوں تک محدود ہے، اور اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اس کا حامل تحقیق و تدریس کی صلاحیت بہرہ مند ہے۔ ڈاکٹریٹ حاصل کرنا منزل نہیں ہے، بلکہ تخلیق و تحقیق کے ایک طویل سفر کا آغاز ہے، ورنہ یہ ڈگری اپنا حقیقی معنی کھو دے گی، ڈاکٹریٹ کا اعزاز در اصل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس شخص نے سیاق کو سباق کے ساتھ ملانے کا تحقیقی طریقہ سیکھ لیا ہے۔ اب تک وہ اس تحیقی راز سے نا آشنا تھا، ظاہر ہے جب سیکھ ابھی لیا تو کام آگے کرنا ہے اسے، اب تک جو کچھ کام کیا ہے وہ سب الف با یعنی سیکھنے کے مرحلہ کے کام کے طور پر شمار ہوں گے۔ (اس کا معنی یہ ہوا کہ شوقیہ PhD کرنے والے حضرات بھی خود بخود اس تعریف سے نکل گئے)
'ڈاکٹر' اور 'پروفیسر' علمی ڈگریاں ہیں، نہ کہ سماجی مراتب یا اعزازی خطابات۔ لیکن دانشور، میڈیا سے وابستہ افراد، صحافی اور ادیب بعض اوقات علمی ڈگری اور سماجی وقار میں فرق نہیں کر پاتے، اس لیے وہ 'ڈاکٹر' کے خطاب کو طاقت یا مقام کی علامت سمجھ کر اس کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ مختلف پیشوں میں خطابات کے جنون کی شدت مختلف ہوتی ہے، لیکن یہ سب سے زیادہ ڈاکٹروں اور اکادمیکس میں نظر آتا ہے۔
جاتے جاتے ان والدین کو بھی کچھ توجہ دلادیا جائے جو اپنے بچے کو میڈیکل کالج میں داخل کرکے اس کی تعریف میں جا بجا رطب اللسان ہوجاتے ہیں کہ یہ ابھی فلاں کالج میں میڈیکل پڑھ کر ڈاکٹر بن رہا / رہی ہیں۔ آپ یہ غلط العام میں فرما رہے ہیں۔ بچہ طبیب و معالج بن رہا ہے، کسی تخلیقی منصوبے میں تحقیقی پروگرام کے تحت کوئی PhD نہیں کر رہا جسے آپ ڈاکٹر ڈاکٹر کہہ کر پھولے نہیں سما رہے، ترک کردیجیے اس روش کو۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں معالج یا طبیب کے رتبے کو کم تر سمجھتا ہوں یا ان کے پیشے کو حقیر جانتا ہوں بلکہ میری نظر میں اس کی قدر و قیمت الگ ہے، وہ ایک بہت ہی عظیم پیشہ اور انسانی خدمت کا ایک عظیم پروگرام ہے۔ بات صرف خلط مبحث کو دور کرنے کا ہے۔ اب یہ ممکن ہے کہ کوئی طبیب ڈاکٹر بھی ہو لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ ہر طبیب ڈاکٹر ہی ہیں۔
سب سے واضح مثال البرٹ آئن سٹائن کی ہے، جو ایک مفکر اور طبیعیات دان تھے جنہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی، لیکن انہیں ان کی پوری زندگی میں صرف 'آئن سٹائن' ہی کہہ کر پکارا گیا، 'ڈاکٹر آئن سٹائن' نہیں، ہمارے ہاں ایک قریب المرگ بڈھا دیہی ہسپتال میں نرسنگ اردلی تھے مگر اپنے نام کے ساتھ شروع سے ڈاکٹر لکھتا آیا ہے، ہمارے علاقے میں لوگ انہیں بھی ڈاکٹر صاحب کہہ کر ہی بلاتے ہیں، ہسپتالوں میں کام کرنے کی وجہ سے اب لیب اٹینڈنٹس اور میڈیکل ٹیکنیشن عملہ کے افراد کو بھی لامحالہ ڈاکٹر ہی کہنا پڑتا ہے ورنہ وہ ناراض ہوجاتے ہیں، پس ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس ناراضگی کے خوف سے ہی ہم بہت سے ایرے غیرے لوگوں کو مفت میں اس اعزاز سے نواز کر پکارتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فی الحقیقت ڈاکٹر اور مفتی ہمارے ہاں ایسے مفقود ہیں جیسے کہ دراز گوش کے سر سے سینگ غائب ہیں۔ پتہ ہے جس اسرائیل کو روز گالیاں دیکر ہم کھانا ہضم کرتے ہیں، وہاں تعلیمی معیار کیا ہے؟ سنا ہے وہاں غالباً BA کی ایڈمیشن کے لیے بھی یہ شرط ہے کہ آپ کوئی نہ کوئی سائنسی آئیڈیا یا تخلیقی منصوبہ پیش کریں گے۔ ہمارے یہاں تعلیم تو یہ ہے کہ سب کچھ رٹہ یا پھر نقل کے سہارے پہ ہی چل رہا ہے۔
ڈاکٹریٹ اور مفتی ہونے کا اعزاز بنیادی طور پر خالصتا علمی اعزازات ہیں، یہ تحقیق و تخلیق کے دو علمی اسفار ہیں منزل نہیں، ڈاکٹر اور مفتی کے مجموعہ لفظ کے استعمال سے میرا اعتماد اس دن اٹھ گیا جس دن سے یہ دو خطابات دیوبندیوں کے مولوی منظور احمد مینگل اور بریلویوں کے مولوی آصف اشرف جلالی کے نام کے ساتھ لکھا ہوا پڑھتا آ رہا ہوں، خدا گواہ ہے اب دل میں ان خطابات کی کوئی قدر و اہمیت باقی نہیں رہی ہے، رہی سہی کسر کوئٹہ کے اس حکیم نے پوری کردی جو اپنے نام کے ساتھ ہر رکشہ، چوک سائن بورڈ اور چوک چوراہے پر ”حکیم، مولانا ڈاکٹر“ لکھ کر لوگوں کو بیوقوف بناتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ بہت بڑے علمی اعزازات تھے، انہیں برصغیر میں ہی کم تر لوگوں نے اپنے مقام و مرتبے کو بڑھانے کے لیے بے قدر و بے قیمت کرکے غلط استعمال کرنے کا رسمِ بد ایجاد کیا۔ ان خطابات کو عوام کالانعام (چوپایوں کی مثل انسانوں) میں ٹماٹر اور کیلے کے دام عام کیا گیا، ظاہر ہے قیمت تو گھٹنی ہی تھی، ورنہ مغرب میں یوول نوح ہراری، آج کے مشہور ترین مورخین اور مصنفین میں سے ایک ہیں، جنہیں ہر کوئی صرف 'یوول' کہہ کر ہی پکارتا ہے، خواہ وہ رسمی ملاقاتوں میں ہو یا عوامی اجتماعات میں، ہمارے کسی مولوی یا طبیب کو مفرد نام کے ساتھ پکاریں، وہ خود یا اس کے فین فالوورز آپ کے چودہ طبق روشن کردیں گے۔
(ڈاکٹروں سے بہت بہت معذرت، اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو اور جو دوست معذرت قبول نہ کریں، ان کو اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے میں نے کمنٹ سیکشن آن رکھا ہے۔)
