کنفیوشس نے کہا تھا: ”آپ زندگی میں وہ کام کریں جس کا آپ کو شوق ہے پھر آپ کو ساری عمر کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا۔“ کنفیوشس کا یہ قول جب بھی میرے ذہن میں آتا ہے، دماغ کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جہاں دوسرے بہت سے اچھے کام ہو رہے ہیں وہیں یہ بھی نہیں ہو رہا کہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق اپنے کیریئر کا انتخاب کر لے۔
جسے کاروبار کرنا چاہیے، وہ سرکاری ملازم بن گیا ہے، جسے قاضی بننا چاہیے، وہ ڈاکٹر بنا ہوا ہے، جسے ڈاکٹر بننا چاہیے، وہ پروفیسر بن کر رہا ہے، جسے پروفیسر بننا تھا، اس کا دل اداکاری میں اٹکا ہوا ہے، جو اداکار بننا چاہتا تھا، وہ موچی بن گیا ہے،جسے ادیب بننا تھا وہ آئی ٹی ورلڈ میں اپنا لوہا منوا رہا ہے،اور جسے موچی بننا چاہیے وہ پولیس میں بھرتی ہو گیا ہے اور جو بے چارہ کچھ نہیں کر سکتا تھا، وہ پرائمری سکول کا ٹیچر بن گیا ہے۔ جو ہر صبح خود کو اس شعر سے motivate کرتا ہے
نہیں منظور مجھ کو ، تم سے شکوہ و شکایت کرنا
کہ اپنے عہد سے پھرنے کی یہ جرات مار ڈالے گی
یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر دوسرا آدمی اپنے کام اور نوکری سے بیزار ہے۔
تاہم ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پسند نہ پسند کے چکر میں نہیں پڑتا بلکہ اس کا مسئلہ صرف ٹھاٹھ باٹھ ہے۔چناچہ اگر آپ ایسے لوگوں سے پوچھیں کہ وہ کس قسم کی جاب کرنا پسند کریں گے تو ان میں سے زیادہ تر کا جواب کچھ اس قسم کا ہوگا "تنخواہ کم از کم ایک لاکھ، تیرہ سو سی سی کی گاڑی بمعہ پانچ سو لٹر پٹرول اور باوردی ڈرائیور، کسی کو جواب دہی نہ کرنی پڑے، یعنی انڈیپنڈنٹ آفس، اوقات کار صبح آٹھ سے تین بجے تک تاہم باس (یعنی خود) کے لیے دس تا ایک بجے، جمعہ کو ہاف ڈے اور ہفتہ کو اتوار سمیت چھٹی۔
لیجئے ہو گئے چھٹی۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے وطنِ عزیز میں دیگر نعمتوں کی طرح ایسی ملازمتوں
کی بھی کمی نہیں لیکن ساتھ ہی اس قسم کی ملازمتوں کے چاہنے والوں کی بھی کچھ کمی نہیں تاہم اگر ان چاہنے والوں سے ان کی قابلیت پوچھی جائے تو جواب میں فقط بی ـ اے کا لفظ سنائی دے گا اور وہ بھی بغیر انگریزی کے۔ ایسے ہی کسی بندہ ناچیز سے میں نے ازراہ مذاق کہا کہ ایسی ایک ملازمت میری نظر میں ہےجہاں اس ناچیز کی سفارش پر اسے لگایا جا سکتا ہے اس لیے وہ فوری طور پر انگریزی میں درخواست ٹائپ کروا کے بھیجوا دے۔ جوابا دو دن کے بعد موصوف کی ایک ایس۔ ایم۔ ایس۔ موصول ہوئی۔ جس میں یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث درخوست نہیں بھیجوا سکتے لہٰذا میں اپنی طرف سے درخواست ٹائپ کرا کے دستخط کے لیے انہیں بھیج دوں۔ ایس۔ ایم۔ ایس۔ کا اصل متن کچھ یوں تھا:
"Rite later wanting do job 4 me very bizi 2 day 2 tomorrow thkx"
ظاہر ہے کہ ایسی شستہ انگریزی میں بھیجی گئی ایس۔ ایم۔ ایس۔ کو سمجھنے میں مجھے خاص دقت پیش آئی۔ موصوف اب جب بھی مجھے ملتے ہیں تو گلہ ضرور کرتے ہیں کہ میں انہیں اتنی اچھی نوکری ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی نہ دلوا سکی ۔۔ بھئ اب میں آپکو کیا کہوں۔۔۔
یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خدا کیونکر ہوتے ہو
کسی روز ایسے جینے کی یہ عادت مار ڈالے گی
اور مجھے وہ سردار جی یاد آجاتے ہیں جو میٹرک کرنے کے بعد ایک ایئر لائن کے دفتر میں "جنرل منیجر" کی آسامی کے لیے انٹرویو دینے کے لیے پہنچ گئے تھے، انٹرویو لینے والے نے سردار جی کی "قابلیت" معلوم کی تو اس نے معنی خیز الفاظ میں سوال کیا کہ: "سردار جی! کیا ڈیڑھ لاکھ تنخواہ کافی ہوگی؟" سردار جی نے چمکتی آنکھوں سے فوراً ہاں میں سر ہلا دیا۔
انٹرویو لینے والے نے پوچھا: "کیا آپ ساتھ میں ایک بڑی گاڑی اور ایک لگژری فلیٹ لینا بھی پسند کریں گے؟" جواباً سردار جی نے یقینی کے عالم میں ایک دفعہ پھر سر ہلا دیا۔
اس پر انٹرویو لینے والے نے غور سے سردار جی کی آنکھوں میں جھانکا اور بولا: "یقیناً خوبصورت بیوی فراہم کرنا بھی ہماری ایئر لائن کی ذمہ داری ہوگی"۔ سردار جی فوراً چونکے اور پوچھا: "آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہے؟" جواب ملا: "مذاق کا یہ سلسلہ آپ ہی نے تو شروع کیا ہے! اب سردار کا افسردہ انداز بیاں ۔۔
کہیں ایمان رکھ کر بھی فریبوں میں نہیں رہنا
جو خواب آنکھوں میں پلتے ہیں وہ حسرت مار ڈالے گی
ان بڑی نوکریوں کے علاوہ کچھ عام لوگ بیچارے چھوٹی موٹی نوکریوں کے متمنی بھی ہوتے ہیں لیکن اگر آپ ان لوگوں سے بھی گفتگو کر کے دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ لوگ اتنی بھی چھوٹی نوکری کے خواہش مند نہیں ہوتے۔
پرائیویٹ سکولوں میں ہی دیکھ لیں۔۔۔
تعلیمی ادارے ویسے تو عزت کی جاب مانے جاتے ہیں، لیکن یہاں ٹیچر کی تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ اس میں میک اپ کٹ تو کیا، وائٹ بورڈ مارکر بھی نہیں آتا۔ لیکن آپ سے توقع رکھی جاتی ہے کہ آپ ہارورڈ کے معیار کی تعلیم دیں، وہ بھی 'پرائمری کلاس' کے بچوں کو جو آپ کی "انڈیپینڈنٹ والی فیس" کا نام بھی نہیں لے سکتے!
اب اگر طویل عرصے کے Experience کے بعد آپ کو کسی سرکاری سکول/کالج میں نوکری مل بھی جائے، تو آپ کی پی ایچ ڈی کی ڈگری ایک طرف، اور آپ کو سارا دن 'کمیٹی والی آنٹی' کے ساتھ بیٹھ کر چندہ جمع کرنے کی ڈیوٹی مل جائے گی۔
معیار کی نوکری؟ وہ تو سالانہ فنکشن میں اسٹیج ڈیکوریٹ کرنے میں گم ہو جاتا ہے۔
میں اب اظہار الفت میں کمی لانے لگا ہوں
یہ مجھ کو میری خود سے کی عنایت مار ڈالے گی
اچھی نوکری ڈھونڈنا آج کل ایسا ہو گیا ہے جیسے آپ فارمولا ون ریس میں سائیکل لے کر پہنچ گئے ہوں! آپ کی قابلیت تو پٹرول ہے، لیکن یہاں تو دوڑنے کے لیے چچا ماموں کی 'سفارش' والا ٹائر چاہیے۔
اب آپ کو چاہیے "سینئر منیجر" کا رول، لیکن مارکیٹ کہتی ہے، "چل بھائی! ہمارے پاس صرف 'چائے بنانے والے کی اسسٹنٹ' کی پوزیشن خالی ہے۔ یا پھر 'ریسیپشن پر کاغذ پکڑانے' کی نوکری، اور تنخواہ؟
جب آپ پہلی تنخواہ کا لفافہ کھولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کمپنی نے آپ سے پوچھا ہو، "اتنی تنخواہ میں گزارا ہو جائے گا؟" اور آپ کا دل کہتا ہے، "گزارا تو نہیں ہو گا، لیکن گزارا کرنے کا سوچنا ضرور ہو جائے گا!"
50,000 روپے کی جاب آفر ہوتی ہے، لیکن انٹرویو کے بعد 25,000 میں 'سیٹل' کرنا پڑتا ہے، اور کمپنی کہتی ہے: "دیکھیں! ہم نے آپ کو تجربہ دے رہے ہیں، وہ بھی تو پیسا ہے نا!" (حالانکہ اس تجربے سے بل نہیں بھرے جاتے!)
انٹرویو کے نام پر ہونے والا ایک مزاحیہ ڈرامہ: سب سے پہلے سوال میں آپکی 'کاسٹ' کی لسٹ کھل جاتی ہے!
انٹرویو پینل میں بیٹھا شخص آپ سے سوال نہیں کر رہا ہوتا، وہ دراصل آپ کا 'شجرہ نسب' پڑھ رہا ہوتا ہے۔
سوال کا آ غاز بڑے formal انداز میں ہوتا ہے like...."ویسے آپ کا تعلق کونسی ذات/برادری سے ہے؟
جواب : "سر، آخری بار جب میں نے اپنا بائیو ڈیٹا پڑھا تھا، تو میری قابلیت کی کوئی ذات نہیں لکھی تھی۔ میں 'پروفیشنل' برادری سے تعلق رکھتا ہوں، اور میرا علاقہ وہ ہے جہاں بہترین انٹرنیٹ کنکشن ہوتا ہے میں ذاتی نہیں، پیشہ ورانہ بنیادوں پر بات کروں گا۔
"آپ (فلاں چھوٹا شہر) سے آئے ہیں، وہاں تو زیادہ مواقع نہیں ہوتے؟" "بالکل ٹھیک کہا سر! لیکن میرے والد صاحب کہتے تھے کہ اگر ہیرا کہیں بھی ہو، تو چمک اس کے ساتھ ہی سفر کرتی ہے۔ میں دراصل آپ کی کمپنی کو وہ چمک دینے آیا ہوں۔" میں کہیں سے بھی آؤں، میری ویلیو کم نہیں ہوتی۔
سوال نمبر 2: "آپ کے والد صاحب کیا کرتے ہیں؟" (اصلی سوال: کہیں آپ 'میری برادری' کے تو نہیں؟)
اگر آپ 'بھائی بند' نکل آئےتو
انٹرویو لینے والا: "ہاں بیٹا! پریشان نہ ہو! سب سیٹ ہو جائے گا۔ تمہارے بڑے بھائی جان کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔" (آپ کی قابلیت جائے بھاڑ میں، اب تعلقات آپ کو نوکری دلوائیں گے!)
اگر آپ 'دوسرے قبیلے' کے نکل آئے:
انٹرویو لینے والا اچانک آئس مین بن جاتا ہے۔ لہجہ سخت ہو جاتا ہے۔ "آپ میں تو 'کانفیڈنس' کی کمی ہے۔ تنخواہ تو 100,000 ہے لیکن ہم آپ کو فی الحال 30,000 ہی دے سکتے ہیں۔ جب آپ ایک سال میں 'کانفیڈنس' کما لیں گے، تب دیکھیں گے!" (اسے آپ کو پروموٹ نہیں کرنا، کیونکہ وہ اپنے کسی کزن کے لیے سیٹ بچا رہا ہے!)
اور اگر بد قسمتی سے پینل میں بیٹھے شخص سے آپ کے پرانے اختلافات نکل آئیں یعنی 1965میں ہونے والے الیکشن میں آپکے دادا ابو کے ابا نے انکے بڑے بھائی کو ووٹ نہ دیا ہو تو انکا ری ایکشن ۔۔۔۔
ارے بیٹا تم ۔۔۔
آپ مجھے پہلے بتا دیتے آ پکے ابا اور میں پچپن میں ایک ساتھ ایک ہی گلی میں کنچے کھیلا کرتے تھے ۔ہماری دوستی تو پورے محلے میں مشہور تھی ۔لگتا ہے آ پ نے مجھے پہچانتا نہیں ۔۔
خیر ! کوئی بات نہیں
اچھا آ پ گھر جاؤ اور آرام کی نیند سو جاؤں ۔۔
آپکی نوکری پکی ۔۔۔
لیکن سر!
ارے بیٹا میں ہوں نہ چچا کے ہوتے ہوئے آپکو فکر کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔
پھر جب اگلی صبح میں اپنے موبائل کا ای۔میل بوکس کھولتی ہوں تو پتا چلتا ہے کہ میں تو ابھی بہت چھوٹا ہوں اور انکو 10سال کے Experience کے ساتھ 50کا بوڑھا چاہیے ۔۔ جسے yes sir اور No sir کے علاوہ کچھ کہنا نہ آئے ۔
اکثر اہلیت کی فائل ایک طرف پڑی رہتی ہے، اور سفارش کا پرچہ پینل کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جاب میرٹ سے نہیں بلکہ میرا رشتہ کیا ہے، اس سے ملتی ہے۔
اب کیا کریں؟
ہنسیں اور آگے بڑھیں! یہ ایک رُکاوٹ ہے، راستہ نہیں۔
راستہ آپکو خود بنانا ہے مہارتوں کو 'سُپر پاور' بنائیں ،اتنے طاقتور بن جائیں کہ کمپنی کے پاس آپ کو نہ رکھنے کا کوئی بہانہ نہ ہو۔
بیک اَپ پلان رکھیں، ایک جگہ سے امیدیں نہ لگائیں۔ آپ کا سی وی (CV) ہمیشہ 50 مختلف ای میلز میں گھومتا رہنا چاہیے۔
اور اگر انٹرویو میں کوئی آپ سے ذات پات کا غیر ضروری سوال کر دے، تو ایک سیکنڈ کی خاموشی کے بعد شاہانہ انداز میں کہیں: "سر! ہم انسان ہیں، میری ٹیکنیکل سکلز میں کوئی 'کاسٹ' نہیں ہے۔شکریہ
اب نوکری فائنل کرتے ہوئے پینل کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اگر آپ کی شادی ہو گئی، تو آپ کیریئر کو چھوڑ تو نہیں دیں گی؟
لگتا ہے وہ کہہ رہے ہیں: ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمارا یہ بہت ضروری 'چائے بنانے والا' کا رول آپ کے شادی کے کچن پلانز میں قربان نہ ہو جائے!
یہ وہ باس ہوتے ہیں جن کی پرموشن ہمیشہ کسی نہ کسی کی سفارش پر ہوئی ہوتی ہے۔ اور یہ چاہتے ہیں کہ آپ سوپر وومن بن کر 8 گھنٹے کا کام 4 گھنٹے میں کر کے دیں، تاکہ وہ باقی 4 گھنٹے آپ سے بچوں کی ڈائپر شاپنگ یا ان کے چچا کی لینڈ ڈیل کے پیپرز پر دستخط کروا سکیں۔ اور یہی بوس جو انصاف پسندی کا لبادہ اوڑھ کر پریکٹیکل میں بچوں کے نمبر ایسے کھاتے ہیں جیسے Pizza میں مایونیز ۔۔۔۔
خیر اب نوکری کی اس ذلالت سے تنگ آکر دی 'جُگاڑُو' قسم کی
خواتین اب گھر بیٹھ کر آن لائن کام کرنے لگی ہیں، تاکہ یہ سارے ڈرامے نہ ہوں۔ لیکن یہاں بھی...
کلائنٹ نمبر 1: "آپ اپنا کام کب تک ختم کر دیں گی؟ مجھے فوراً چاہیے۔" (جیسے آپ کا سارا دن ان کے چھوٹے سے ٹیکسٹ میسج کے انتظار میں گزرتا ہے!)
کلائنٹ نمبر 2: "کیا آپ مجھے یہ ڈیزائن فری میں بنا کر دے سکتی ہیں؟ آپ کو 'بہت زیادہ ایکسپوژر' ملے گا!
میں حیران ہوں بھئ! کیا اب ایکسپوژر سے بل بھرے جا سکتے ہیں؟ کاش میں بل والے کو کہہ سکتی: "بھائی! یہ لو 10,000 روپے کا ایکسپوژر اور میرا بجلی کا میٹر لگا دو!
ایسے میں اب اب کیا ہم لڑکیوں کو نوکری کرنی چاہیے! بالکل کرنی چاہیے! لیکن انڈیپینڈنٹ ہونا اس لیے ضروری نہیں کہ ہم مردوں کی برابری کر سکیں، بلکہ اس لیے کہ ہم خود کو پہچان سکیں۔
نوکری ہمیں صرف تنخواہ نہیں دیتی
یہ ہمیں خود اعتمادی، تجربہ، اور اختیار دیتی ہے۔
یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ اپنے خوابوں کے لیے کھڑا ہونا جرم نہیں،
بلکہ فخر کی بات ہے۔
نوکری اس لیے کرو…
تاکہ تم خود فیصلہ کر سکو، خود سنبھل سکو،
اور کل کو کسی کے احسان کی نہیں،
اپنی محنت کی طاقت پہ جیو۔
آپکو پتا ہونا چاہیے آ پکا معیار کیا ہے اور آپکی حدیں کیا ہے کسی کو shut up call دینا آپ کو معیوب نہ لگے
اور اگر باس ذاتی سوال پوچھے تو فوراً کہیں: "سر، آپ اپنا کام کریں، میری ذات اور شادی کے لیے میرے پاس 'پہلے ہی ایک مکمل پلان' موجود ہے، اور اس میں آپ کا کوئی رول نہیں!"
یہ احوال تو ان لوگوں کا تھا جو من پسند نوکریاں لینے کی خواہش مند ہوتے ہیں تاہم یہاں ایک بات واضح رہے کہ ضروری نہیں کہ من پسند نوکری کرنے والے اپنے کام سے بھی محبت کریں جیسا کہ کنفیوزشس نے کہا تھا کہ اپنے کام سے محبت نہ کرنے والوں کے پاس کام نہ کرنے کے بہتیرے بہانے ہوتے ہیں مثلا یہ کہ باس اچھا نہیں ہے (یعنی وہ کام بہت لیتا ہے) یا پھر یہ کہ کام کرنے کا ماحول ٹھیک نہیں ہے اس قسم کے تمام لوگوں کے لیے میرا ایک مشورہ ہے جو میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگر آپ ایک گھنٹے کی خوشی چاہتے ہیں تو اپنی نیند پوری کر لیں اگر پورے دن کی خوشی چاہتے ہیں تو پکنک پر چلے جائیں اگر ایک ہفتے کی خوشی چاہتے ہیں تو چھٹی لے کر تفری مقام پر چلے جائیں اگر ایک ماہ کی خوشی چاہتے ہیں تو شادی کر لیں اگر ایک سال کی خوشی چاہتے ہیں تو وراثت میں دولت حاصل کر لے اور اگر ساری عمر کی خوشی چاہتے ہیں تو اس کام سے محبت کرنا سیکھیں جو آپ کرتے ہیں۔
*عزل*
مجھے معلوم ہے یہ رسم زمانہ چھوڑنی ہوگی
یہ ہر شخص سے ملنے کی عقیدت مار ڈالے گی
نہیں منظور مجھ کو تم سے شکوہ یا گلہ کرنا
کہ اپنے عہد سے پھرنے کی جرات مار ڈالے گی
یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خفا کیوں کر ہوتے ہو
کسی روز ایسے جینے کی یہ عادت مار ڈالے گی
اگرچہ جسم میں کم ہے مگر خون وفا باقی
یہ دنیا زہر دے گی اور صداقت مار ڈالے گی
میں اب اظہار الفت میں کمی لانے لگا ہوں
یہ مجھ کو میری خود سے کی عنایت مار ڈالے گی
کہیں ایمان رکھ کے بھی فریبوں میں نہیں رہنا
جو خواب آنکھوں میں پلتے ہیں وہ حسرت مار ڈالے گی
مجھے تنہا سمجھنا غلط فہمی ہے اہل دنیا کی
تمہیں میری حلقہ آرائی کی یہ شہرت مار ڈالے گی
ہمیں تو مر کے بھی قربانیوں کا حساب دینا ہے
کہ جیتے جی یہاں زندہ کی محنت مار ڈالے گی
یہ جو دل روتا ہے مگر کہتا نہیں ہے حرف بھی
محبت کی ضد میں یہ شرافت مار ڈالے گی
نمرہ کو نہ اب تنہائی کی عادت ڈال
یہ خاموشی اسے تنہا ہی مار ڈالے گی
