ڈھول کی گونج پورے قبیلے میں پھیل گئی تھی۔ جیسے ہی سورج ڈھلا، قبیلے کے بیچوں بیچ بڑا سا الاؤ روشن ہو چکا تھا جس کے شعلے آسمان کی طرف لپک رہے تھے۔ عورتیں رقص کرتی ہوئی دیگوں کے گرد جمع تھیں۔ بڑی بڑی ہنڈیاں آگ پر رکھی گئیں، جن میں پانی اور جنگلی پتے ڈالے جا رہے تھے۔ بچے تالیاں بجاتے ہوئے خوشی سے شور مچا رہے تھے۔ کچھ نوجوان چھریوں سے تازہ ہاتھ لگنے والے انسانی گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے کاٹ رہے تھے۔ خون کے دھارے مٹی میں جذب ہو رہے تھے، اور قبیلے کے لوگ تالیاں بجا کر خوشی کے نعرے لگا رہے تھے۔ بزرگوں کی ایک ٹولی زمین پر بیٹھی منتر پڑھ رہی تھی یہ بھی مقدس رسم کا ایک حصہ تھا۔ ہر طرف ایک عجیب جشن کا سا سماں تھا۔
گوشت پکنے کا انتظار سب کے چہروں پر چمک رہا تھا۔ دیگ ابل رہی تھی۔ بھاپ کے بادل آسمان کی طرف اٹھتے اور الاؤ کی روشنی میں سنہری دکھائی دیتے۔ خواتین لکڑی کے بڑے بڑے چمچوں سے دیگ ہلاتیں، کبھی خوشی کے گیت گاتیں۔ ان کے ماتھے پسینے سے چمک رہے تھے مگر خوشی سے ان کی آنکھیں جگمگا رہی تھیں۔
چھوٹی بچیاں ہنڈیوں کے گرد ناچتی ہوئی گیت گاتیں:
“ہماری طاقت، ہمارا گوشت!”
ہوا میں جلتی لکڑی، خون اور پتوں کی مہک گھل گئی تھی۔ عورتیں جوش سے شور مچاتیں تو ان کی آوازیں الاؤ کے شعلوں کی طرح اور بلند ہو جاتیں۔ کچھ عورتیں گوشت کے ٹکڑوں پر نمک اور مصالحے چھڑک کر الگ رکھی ہانڈی میں ڈال رہی تھیں۔ خوشبو اور تیز ہو گئی تھی۔
کوری نے دیکھا، وہ ایک دوسرے کو چمچ چکھنے کے لئے دیتیں، اور پھر سے پکانے میں مصروف ہو جاتیں۔
یہ رسم ہمیشہ سے عورتوں اور بچوں کے لئے زیادہ دلچسپی کا باعث تھی۔ مرد صرف تیاری کرتے، لکڑیاں ڈھوتے اور گوشت کاٹتے اور پھر آخر میں کھانے میں شریک ہو جاتے۔ دیگ کے ڈھکن اٹھے تو دیگوں سے نکلنے والی خوشبو نے فضا کو اور بھی بھرپور بنا دیا عورتوں نے خوشی کے نعرے لگائے۔
بچے دوڑ کر بڑے بڑے پتے لے آئے۔ سب کے چہروں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی اس گوشت میں ان کے جینے کا راز چھپا تھا۔
الاؤ کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ دیگ سے گوشت نکال کر بڑے پتوں پر رکھا گیا، جنہیں عورتیں اور بچے آگے بڑھ بڑھ کر تھامنے لگے۔ بزرگ مردوں اور عورتوں نے اونچی آواز میں منتر پڑھے اور پھر پہلا نوالہ ایک بچی کے منہ میں ڈالا۔ بچی نے جیسے ہی چبایا، شور شرابے کر ساتھ ساتھ ڈھول اور زور سے بجنے لگے۔ سب ہاتھوں میں گوشت کے ٹکڑے تھامے بیٹھ گئے تھے
، عورتیں خوشی سے کبھی ایک دوسرے کے منہ میں نوالہ ڈالتیں تو کبھی کسی بچے کے منہ میں ۔ گوشت کی خوشبو، قہقہوں اور ڈھول کی تھاپ نے فضا کو بے قابو کر دیا۔ یہ صرف کھانے کا موقع نہ تھا یہ ایک جشن تھا ان کے ہاتھ بڑا انسانی گوشت لگنے کا۔عورتوں کے ہونٹ گوشت کے رس سے تر تھے، بچے اپنے ہاتھ چٹخارہ لے کر چاٹ رہے تھے۔ ان کے نزدیک یہ طاقت کا ذائقہ تھا یہ صرف کھانا نہیں تھا، ایک عقیدہ تھا زندگی کی بقا کا، روایت کی جیت کا۔۔
کوری خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس کے لئے یہ مانوس بھی تھا اور پراسرار بھی۔ کوری کے سامنے عورتیں اور بچے خوشی مناتے گوشت چبا رہے تھے۔ لیکن اس کے دل پر عجب سا بوجھ تھا۔ وہ اپنی ماں کے ہاتھ سے گوشت لینے ہی والا تھا کہ اچانک رک گیا۔
اسے لگا گوشت کے ٹکڑوں سے خون ٹپک رہا ہے، جیسے ہر نوالہ چیخ رہا ہو۔ اس کے کانوں میں ڈھول نہیں، ماتم کی صدا سنائی دی۔
“یہ سب کس لیے؟” اس نے ہمیشہ کی طرح خود سے کہا۔
“کیا بھوک مٹانے اور زندہ رہنے کے اور طریقے نہیں؟ کیا طاقت صرف گوشت میں ہے؟“
ماں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا:
“ کھاؤ کوری، یہ ہماری رسم ہے، ہماری پہچان ہے۔ نوالہ کھاؤ، ورنہ تم قبیلے سے الگ ہو جاؤ گے۔“ اس کی ماں نے زبردستی لقمہ اس کے منہ میں ڈالنا چاہا تو اس نے ناگواری سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا
کوری نے اپنی ماں کی آنکھوں میں جھانکا وہ سرشاری سے چمک رہی تھیں۔ اس کا دل بھر آیا۔ اس رات وہ دیر تک جاگتا رہا۔ الاؤ کی راکھ ٹھنڈی ہو چکی تھی، مگر اس کے دل میں ایک آگ جل اٹھی تھی۔ وہ جان گیا تھا کہ وہ کبھی بھی اس سب کا حصہ نہیں بن سکتا۔ کچھ دن بعد، کوری نے فیصلہ کر لیا۔ اس نے اپنے باپ کی پرانی جھونپڑی کے پیچھے رکھی چھوٹی سی تھیلی اٹھائی، جس میں چند کپڑے رکھے، ماں نے جاتے وقت اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
“یاد رکھنا کوری، رسمیں انسان کو جوڑے رکھتی ہیں۔ باہر کی دنیا میں تم اکیلے ہو جاؤ گے۔”
کوری نے آہستہ سے کہا:
“یہ کیسی رسم ہے یہ تو غلاظت ہے”
وہ جنگل کے راستوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا چل پڑا۔
قبیلے کی محبت اور ماں کی آواز اسے روکتی رہی مگر کوری کے قدم آگے بڑھتے گئے۔
شہر میں داخل ہوتے ہی اسے لگا جیسے وہ کسی اور ہی دنیا میں آ گیا ہے۔ بلند وبالا عمارتیں، شور مچاتی گاڑیاں، اور ہر چہرے پر مصروفیت کا نقاب۔ یہاں کسی کو کسی کی پرواہ نہ تھی، سب اپنی دوڑ میں لگے تھے۔ وہ اپنی زندگی بدلنے جا رہا تھا لیکن اسے اندازہ ہوا کہ وہ اپنے قبیلے سے بھی زیادہ خطرناک لوگوں کے درمیان تھا۔ شہر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی وسیع شکاری جنگل میں داخل ہو گیا ہے جہاں ہر انسان دوسرے کو شکار کرنے کے لئے گھات لگائے ہوئے تھا۔ ان کی آنکھوں میں بھوک تھی ایک دوسرے کو موقع ملتے ہی بھنبھوڑ دینے کی بھوک ۔۔
اس نے دیکھا گلی کے ایک کونے میں چھوٹی سی جھگی جل رہی تھی۔ اندر عورتیں اور بچے روتے بلکتے چیخ رہے تھے، مگر باہر کھڑے بااثر آدمی ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ مار کر خوش ہو رہے تھے:
”یہ زمین اب ہماری ہے، دیکھتے ہیں اب یہاں شاپنگ مال کھڑا ہونے سے کون مائی کا لال روکتا ہے!۔“
کوری کے کانوں میں جلتی لکڑیوں کی چرچراہٹ خون کی ہنسی میں بدل گئی۔اسے لگا جیسے ان کے چہروں سے جھلسے ہوئے بچوں کی چیخیں نوالے کی طرح اتر رہی ہیں۔
وہ آگے بڑھا۔ سامنے ایک اسکول تھا۔ دیوار پر بڑے حروف میں لکھا تھا ” تعلیم سب کے لیے“ مگر اندر استاد ایک لڑکے کو سب کے سامنے ذلیل کر رہا تھا
” سکول تو آ گئے ہو فیس تمہارا باپ دے گا؟”
لڑکے کی آنکھوں میں آنسو تھے، جیسے خواب نوچ لیے گئے ہوں۔ کوری کے دل میں ایک خنجر سا اتر گیا۔ یہاں علم بھی دولت کے پیٹ میں ضم ہو رہا تھا۔
وہ آگے بڑھ گیا ہسپتال کے دروازے پر ایک ضعیف شخص ادھ موا پڑا موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہا تھا اس کا بیٹا ڈاکٹر سے رحم کی بھیک مانگ رہا تھا اور ڈاکٹر نے سرد لہجے میں چلا رہا تھا
“پہلے رقم دو، پھر آپریشن ہو گا ورنہ دفع ہو جاؤ یہاں سے“ بوڑھا زمین پر لڑھک چکا تھا۔ کوری نے کانوں میں ایک نیا شور سنا جیسے ہسپتال کی سفید دیواروں پر لکھی قسمیں چبائی جا رہی ہیں جن میں غریبوں کیا مفت علاج کیا جاتا تھا۔
وہ ایک بڑی عدالت کے سامنے سے گزرا لوگ انصاف کے انتظار میں کھڑے تھے۔ اندر سے ایک آدمی نکلا، اس کے ہاتھ میں کاغذات تھے اور چہرے پر مسکراہٹ۔ چودھری پیسہ کھلا کر مقدمہ جیت چکا تھا۔ کوری نے سوچا” بکے ہوئے قانون کے دانت، ان کی انسانوں کو کاٹنے والی کلہاڑی سے بھی زیادہ تیز ہیں۔ یہ گوشت نہیں، لوگوں کا مال عزت سب کاٹ ڈالتے ہیں“
وہ ایک شاہانہ عمارت کے قریب پہنچا۔ اندر سیاستدان بیٹھے تھے۔ ہاتھوں میں قلم اور زبان پر وعدے مگر ہر وعدہ توڑنے کے لیے کیا جا رہا تھا۔ باہر عوام نعرے لگا رہے تھے لیکن انہیں بیوقوف بنانے پر اندر منصوبے تشکیل دئیے جا رہے تھے۔ کوری کو لگا جیسے یہ سب بھی اس کے قبیلے کے انسانی گوشت کھاتے لوگ ہیں۔
شام ڈھل رہی تھی۔ کوری تھک کر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ چاروں طرف شور مچا ہوا تھا۔ کوئی کسی کے خواب ملیا میٹ کر رہا تھا تو کوئی کسی کی عزت و مال پر ڈاکا ڈال رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ شہر کی پر فریب روشنیاں ستاروں کو ماند کر رہی تھیں۔ کوری کے دل میں ایک ہی خیال بار بار ابھرا ”ہمارے قبیلے کے آدم خور کم از کم سچ بولتے تھے۔ وہ مانتے تھے کہ انسانی گوشت کھاتے ہیں لیکن یہ لوگ! یہاں ہر کوئی دوسرے کو نوچ رہا تھا مگر مانتا ہی نہیں تھا۔“
کوری کی بھوک بھڑک رہی تھی وہ بیتاب کچرے کے ڈھیر کی طرف بڑھا۔ سڑاند اور مکھیاں اس کے معمولات میں شامل تھیں۔ اچانک اس کا ہاتھ ایک کپڑے کی گھٹڑی سے ٹکرایا اس نے کھول کر دیکھا ایک لمحے کے لیے اس کے ماتھے پر سوچ کا جال بنا مگر ساتھ ہی آنکھوں میں ایک چمک ابھری اس نے گٹھڑی دوبارہ لپیٹی اور بغل میں دبا لی اب وہ تیز قدموں سے قبیلے کی طرف جا رہا تھا۔
آج اس کے گھر دعوت متوقع تھی کسی کی تاریکی میں اٹھائی گئی لذت کا گناہ، جو اس نے کچرے میں پھینک دیا تھا، آج آدم خوروں کا رزق بننا تھا۔ اس نے بے ہنگم قہقہہ لگایا شہر دیکھ آیا تھا، اب انسانی گوشت کھانے میں کیسی کراہت ؟؟؟
