فن، جمالیات اور مزاحمت، مارکس سے مارکیوز تک۔۔۔سائرہ رباب

 مارکس کے نزدیک فن اور ثقافت کوئی مقدس یا الگ دائرہ نہیں، بلکہ سماجی پیداوار (social production) کا حصہ ہیں۔ جیسے کارخانے میں مشینیں مادی اشیاء تیار کرتی ہیں، ویسے ہی فن بھی ایک پیداوار ہے ۔۔۔ سماج کے معاشی، طبقاتی اور مادی حالات سے جنم لینے والا نتیجہ۔ مارکس کے ہاں فن اور ثقافت کا درجہ کسی روحانی یا ماورائی شے کا بجاۓ دیگر اشیاء اور commodities جیسا ہے جو مخصوص معاشرتی نظام کے اندر بنتی اور گردش کرتی ہیں۔ ہر دور میں حکمران طبقہ صرف دولت نہیں بلکہ خیالات اور جمالیات پر بھی قابض ہوتا ہے۔ وہ طے کرتا ہے کہ ’’خوبصورتی‘‘ کیا ہے، ’’اچھا‘‘ کیا ہے اور ’’سچ‘‘ کیسا دکھتا ہے۔اگر فن غربت کو تقدیر کا نتیجہ بتائے تو وہ طاقت کے نظام کو جائز بناتا ہے، لیکن اگر وہ دکھائے کہ غربت کا تعلق معاشی ڈھانچے سے ہے تو وہ مزاحمتی شعور پیدا کرتا ہے۔مارکس کی خوبی یہ ہے کہ وہ فن کو سماج سے جڑا سمجھتا ہے، مگر کمی یہ کہ وہ اسے صرف طبقاتی عکاسی مانتا ہے، آزاد تخلیقی تجربہ نہیں۔ اس کے نزدیک فن حقیقت کی تصویر ہے مگر حقیقت سے آگے نہیں جا سکتا۔مارکیوز اور جمالیاتی آزادیمگر مارکوز کے نزدیک فن صرف پیداوار نہیں بلکہ پیداواری طاقت (productive force) ہے ۔۔۔یعنی فن خود نئی حقیقتیں، نئے احساسات اور آزادی کے امکانات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فن نظام کا محض نتیجہ نہیں ، بلکہ نظام بدلنے کی قوت بن سکتا ہے۔ اس کے نزدیک فن محض حقیقت کی عکاسی نہیں بلکہ اس کی نفی ہے، کیونکہ موجودہ حقیقت خود نامکمل ہے۔ طاقت کے نظام نے جو دنیا دکھائی ہے، فن اسی ترتیب کو توڑ کر نئی ترتیب تجویز کرتا ہے۔جب کوئی شاعر دکھ کو استعارے میں بدل دیتا ہے، یا کوئی فلم مظلوم کو خواب دیکھنے کی جرات دیتی ہے تو یہی "art transcends reality" ہے ۔۔۔۔ یعنی فن اعلان کرتا ہے کہ زندگی جیسی ہے، ویسی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ویسی ہو سکتی ہے جیسی فن دکھاتا ہے۔۔۔۔ ایک متبادل دنیا کا امکان ۔مارکیوز کہتا ہے کہ جمالیات بظاہر ’’غیرعملی‘‘ لگتی ہے مگر دراصل سب سے گہری سیاست ہے، کیونکہ وہ احساس اور تخیل کو آزاد کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی نظم یا موسیقی ہمیں رک کر محسوس کرنے پر مجبور کرے تو وہ سرمایہ داری کے خلاف انسانی روح کی بحالی بن جاتی ہے۔مارکسی نقاد فن کے مواد پر زور دیتے تھے، مگر مارکیوز نے بتایا کہ اصل انقلابی چیز Form (صورت، ساخت، آہنگ) ہے، کیونکہ یہی روزمرہ کے میکانکی نظم کو توڑتی ہے۔“Form itself can be revolutionary.”یعنی اگر فن اپنے اسلوب یا آہنگ میں طاقت کے نظام سے مختلف ہے تو وہ خود مزاحمت ہے، چاہے موضوع سیاسی نہ ہو۔Picasso کی Guernica صرف جنگ نہیں دکھاتی بلکہ ٹوٹے اجسام اور چیختی اشکال کے ذریعے خود ’’form of protest‘‘ بن جاتی ہے۔مارکیوز بیتهوون کی symphonies یا بریخت کے تھیٹر کو بھی ایسی ’’حسیاتی مزاحمت‘‘ کی مثال کہتا ہے ۔۔ وہ نظام کے اندر رہ کر اسی کے خلاف بغاوت پیدا کرتے ہیں۔اسی طرح جب کوئی لوک گیت یا عورت ظلم کے خلاف اپنی آواز گاتی ہے تو وہ بھی جمالیاتی مزاحمت ہے، کیونکہ وہ نظام کی عائد کردہ خاموشی توڑ دیتی ہے۔ صفیہ حیات کے یہ اشعار اسی احساس کو ظاہر کرتے ہیں: "مجھے وہاں نہیں رہناجہاں ریشمی اطلس پہنےمیرے محبوب کو جنسی دعوت دیںاور میں نگینے جڑے تخت پہ بیٹھی انتظار کروں"Form as Resistanceبلھے شاہ کا کلام محض روحانیت نہیں بلکہ سماجی و طبقاتی مزاحمت بھی ہے۔ انہوں نے رقص، محبت اور استعارے کے ذریعے مذہبی اجارہ داری اور ذات پات کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کے ہاں form .. یعنی رقص، قوالی، موسیقی ... خود مزاحمت ہے۔سائیں ظہور، عابدہ پروین اور شاہ لطیف بھٹائی کی گائیکی میں بھی یہی روح ہے.. جہاں دھن، تکرار اور وجد انسان کو مذہبی و طبقاتی قید سے آزاد کرتے ہیں۔ قوالی ایک عوامی اور روحانی form ہے جو اشرافیہ کے "کلاسیکل" معیار کو توڑتی ہے۔ نصرت کی “علی مولا” یا “دم مست قلندر” صرف نغمے نہیں بلکہ ایک اجتماعی وجد(collective trance) ہیں، جہاں انسان طبقے، نسل اور مذہب سے بلند ہو کر وحدتِ انسانیت کا تجربہ کرتا ہے۔جب کسی فلم کے کلائمکس پر مغربی آرکسٹرا کے بجائے قوالی کی لے اُٹھتی ہے، تو یہ ثقافتی اعلان بن جاتی ہے کہ انسان کی اصل وحدت محبت اور روحانیت میں ہے، نہ کہ طبقے یا نسل میں۔اسی طرح پُشپا میں ہیرو کا جملہ “Taggede le!” (جھکے گا نہیں) صرف مکالمہ نہیں بلکہ طبقاتی فخر کا اعلان ہے۔ اس کا انداز اور جسمانی حرکت طاقت کے جمالیاتی ڈھانچے کو چیلنج کرتی ہے۔پنجابی فلموں میں مولا جٹ یا نظام ڈاکو جیسے کردار جاگیرداروں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو وہ محض کہانیاں نہیں بلکہ بیانیے کا الٹ جانا ہیں ۔۔ جہاں طاقتور نہیں بلکہ محکوم مرکزی کردار بنتا ہے۔ یہی ’’جمہوری جمالیات‘‘ ہے۔فیض کا شعر “لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے” بھی صرف نعرہ نہیں، بلکہ حسن، امید اور بغاوت کا جمالیاتی اظہار ہے جہاں فن خود انقلابی بن جاتا ہے۔ٹری ایگلٹن — Art Against Artٹری ایگلٹن کے نزدیک جمالیات بذاتِ خود سیاسی ہیں۔ وہ کہتا ہے: “Aesthetics is not an escape from politics; it is politics by other means.”جو طبقہ طے کرتا ہے کہ کیا خوبصورت یا مہذب ہے، وہی طاقت رکھتا ہے کہ کیا قابلِ قبول ہے۔ ایگلٹن کے مطابق سرمایہ داری نے ’’جمالیاتی آزادی‘‘ کا نعرہ دے کر اجتماعی شعور کو غیرسیاسی بنا دیا۔ فنکار کو کہا گیا کہ وہ سیاست سے اوپر اٹھے، حالانکہ یہ مطالبہ خود سیاسی ہے، کیونکہ یہ اسے سماجی جدوجہد سے کاٹ دیتا ہے۔ایگلٹن کے نزدیک ’’فن برائے فن‘‘ کا نظریہ سرمایہ داری کا پیدا کردہ فریب تھا، جس نے فن کو عوام سے جدا کر دیا۔ جمالیات اب خواص کی تفریح بن گئیں، جبکہ اصل میں یہ محکوم انسانوں کی آزادی کا وسیلہ تھیں۔وہ کہتا ہے: ’’آرٹ اگینسٹ آرٹ‘‘ بھی مزاحمت ہے ۔۔ یعنی جب کوئی فن طاقتور طبقے کے جمالیاتی معیار کو الٹ دیتا ہے تو وہ بیانیہ ہی بدل دیتا ہے۔مثلاً اشرافیہ کے نزدیک موسیقی پیچیدہ کلاسیکی راگ ہے، مگر عوامی فن قوالی یا لوک گیت کی صورت میں آتا ہے، جو انسانی تجربے سے جڑا ہوتا ہے۔ یہی ’’سادگی‘‘ طاقت کے بیانیے کو توڑ دیتی ہے۔اسکے نزدیک خوبصورتی بذاتِ خود نظریاتی عمل ہے۔ اشتہارات میں حسن سرمایہ دارانہ خواہش کا استعارہ بن جاتا ہے، جبکہ حقیقی فن اس جھوٹے حسن کو بے نقاب کرتا ہے۔ ایگلٹن کے الفاظ میں: “فن ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ انسان محض مظلوم نہیں، بلکہ معنی پیدا کرنے والا وجود ہے۔”متبادل جمالیات اور عوامی مزاحمتبولی وُڈ کا مرکزی سنیما شہری خوابوں کے جادو میں محبت کو دولت، لباس اور مغربی دلکشی سے جوڑ دیتا ہے، مگر جنوبی ہند کا سنیما اس کے برعکس متبادل جمالیات تخلیق کرتا ہے۔ پُشپا اور کالا جیسے کردار محنت کش، دکھی اور سماجی حاشیے پر موجود انسانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے لباس دیہی ہیں، ان کی زبان عوامی ہے، ان کی موسیقی قوالی یا لوک دھنوں سے جڑی ہوئی۔ یہ سب مل کر ’’ریاستی طاقت‘‘ اور ’’کارپوریٹ جمالیات‘‘ کے خلاف ایک نئے بیانیے کی تشکیل کرتے ہیں۔جب بولی وُڈ کے گلیمرس ہیروز کے مقابل جنوبی سنیما میں دھوتی، مٹی سے اٹے چہرے اور عام بولیوں والے کردار مرکزی مقام پاتے ہیں، تو یہ دراصل طاقت کے قائم کردہ جمالیاتی اصولوں کی مزاحمت ہے ۔۔۔ ایک ایسا اعلان کہ فن، جمالیات، اور مزاحمت الگ نہیں بلکہ ایک ہی تخلیقی عمل کے مختلف چہرے ہیں۔۔۔ فینن: ثقافت اور ذہنی آزادیفرانز فینن (Frantz Fanon) کہتا ہے کہ استعمار سب سے پہلے ’’دماغ‘‘ کو غلام بناتا ہے۔“Colonialism colonizes the mind.”فینن کے نزدیک نوآبادیاتی غلامی صرف سیاسی اور معاشی نہیں بلکہ نفسیاتی اور جمالیاتی غلامی بھی ہے۔ غلام کو یہ احساس دیا جاتا ہے کہ اس کی زبان، لباس، یا موسیقی کمتر ہے۔ اس لیے فن کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی پر یقین دوبارہ حاصل کرے۔اسی لیے فینون کے نزدیک ثقافتی بازیافت (cultural reclamation) سیاسی آزادی کی تمہید ہے۔جب کوئی قوم اپنی زبان، موسیقی، رقص، یا کہانیوں کو زندہ کرتی ہے، تو وہ دراصل اپنی شناخت اور خودی واپس لاتی ہے۔فرانتز فینون نے The Wretched of the Earth میں لکھا کہ“At the beginning, the native intellectual produces work which is not fighting literature, but a literature of lament. Yet even this lament is a form of resistance.”یعنی ابتدا میں محکوم صرف درد بیان کرتا ہے، مگر یہی درد مزاحمت کی بنیاد بن جاتا ہے۔اسی طرح اٹتونیو گرامچی کے نزدیک طاقت صرف معیشت یا ریاستی جبر سے نہیں، بلکہ ثقافتی ہیجمنی (Cultural Hegemony) سے بھی قائم رہتی ہے۔ اس لیے مزاحمت کی پہلی شکل اکثر ثقافتی یا علامتی ہی ہوتی ہے کیونکہ یہی وہ میدان ہے جہاں “consent” یعنی رضامندی پیدا کی جاتی ہے۔برصغیر میں جب نوآبادیات نے قبضہ کیا تو انہوں نے صرف زمین نہیں لی، جمالیات کی تعریف بھی بدل دی۔ دیسی موسیقی، زبان، شاعری اور لباس کو "غیرمہذب" کہا گیا۔ یہ وہی عمل تھا جسے ایگلٹن "سیاسی جمالیات" کہتا ہے .. یعنی طاقت نے خوبصورتی کے معنی اپنے مفاد کے مطابق طے کیے۔نوآبادیاتی نظام نے عوامی فن کو "لوک" کہہ کر نیچا دکھایا، اور مغربی فن کو "اعلیٰ" قرار دیا۔ مگر مقامی فنون ... چاہے وہ صوفیانہ قوالیاں ہوں، ٹھمری ہو یا لوک کتھائیں ... دراصل عوامی شعور کی سیاست تھے۔ یہ محض لوکل آرٹ فارمز نہیں بلکہ اجتماعی تجربے کی زبان تھے، جنہیں مٹانا نوآبادیاتی کنٹرول کا حصہ تھا۔ اسی لئےجب ایک نظام انسان کے خوابوں پر قبضہ کر لیتا ہے تو آزادی کی جدوجہد خواب دیکھنے کے حق سے شروع ہوتی ہے۔’’دل تو پاگل ہے‘‘ میں کرشمہ کپور کا مغربی رقص اور ملبوسات ایک globalized aesthetic دکھاتے ہیں،جبکہ مادھوری کا رقص، لباس، کردار اور موسیقی ہندوستانی جمالیات کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ محض لباس کا فرق نہیں ، بلکہ ثقافتی خودی (cultural assertion) کا بیان ہے۔مادھوری کے کردار میں مشرقی رومان، احساس، اور روایت سے جڑی ہوئی محبت کی اخلاقیات زندہ ہیں۔یہ وہ جگہ ہے جہاں فن کی فارم خود مزاحمت بن جاتی ہے۔جیسا کہ فینون کہتا ہے، یہی “pre-political resistance” ہے جو آگے چل کر شناختی اور فکری آزادی کی بنیاد بنتی ہے۔یہی ثقافتی خودی ہمیں فلم " پردیس" میں بھی " گنگا اور ارجن" کے کردار میں دکھائی دیتی ہے ۔فلم " تال " میں ایشوریا رائے کا کردار جدید موسیقی کی انڈسٹری میں داخل ہو کر بھی اپنی لوک گائیکی اور روایتی رقص کو برقرار رکھتا ہے۔ فلم خود یہ دکھاتی ہے کہ “ماڈرن پلیٹ فارم ” پر “local form” کو assert کرنا بھی ایک مزاحمت ہے۔فلم "کانتارا " یا " پشپا " میں رقص، ڈھول، قبائلی نغمے،یہ سب مل کر ایک ایسی form بناتے ہیں...جو صرف کلچر نہیں دکھا رہی ۔۔ بلکہ سامراجی جبر کے خلاف عوام کی روحانی مزاحمت کا منظر تخلیق کر رہی ہے۔فلسطینی شاعر محمود درویش کی نظم “Identity Card” میں“Write down!I am an Arab.”ایک سادہ جملہ نہیں، بلکہ شناخت کی بازیافت کا اعلان ہے ۔۔ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی یا نوآبادیاتی جمالیات میں زندگی کا مطلب انفرادی لذت، آزادی، سیکس ، desire, travel یا وجودی تنہائی (existential loneliness) کے گرد گھومتا ہے ۔۔۔ جیسے فلم “زندگی نہ ملے گی دوبارہ ” یا "یہ جوانی ہے دیوانی "، " تماشا" جیسی فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف “خود کو پانے” اور “pleasure experience” کرنے میں ہے۔ یہ وہ “existential vacuum” ہے جسے سرمایہ دارانہ تمدن نے رومانوی خوبصورتی بنا دیا ہے۔اس کے برعکس جنوبی ہند یا پنجابی فلموں میں ہیرو اجتماعی بہبود، قربانی، رشتوں کی حرمت اور محبت کی اخلاقیات کا نمائندہ ہوتا ہے۔ تو یہ بھی ثقافتی خودی کی assertion ہے ۔فلم “Pushpa” میں ہیرو اپنی “میں” کو نہیں بلکہ اپنی “کمیونٹی” کو بچانے کے لیے لڑتا ہے ۔۔سلطان راہی کا مولا جٹ یا نظام ڈاکو صرف طاقت یا انتقام کی کہانیاں نہیں، ہیرو کا مقصد “خود کو پانا” نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف اپنے قبیلے اور عوام کا وقار بچانا ہوتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں مقامی جمالیات عالمی سرمایہ دارانہ “existential art” کے خلاف مزاحمت بن جاتی ہیں ۔۔آج جب پاکستانی یا بھارتی سنیما مغربی سانچوں میں کہانیاں لکھتا ہے ۔۔۔ جہاں کردار ایسی الجھنوں میں مبتلا دکھائے جاتے ہیں جو اس خطے کے لوگوں کے حقیقی تجربے سے جڑی ہی نہیں ہوتیں ۔۔۔تو لوگ ان سے جڑ ہی نہیں پاتے اور اجنبیت alienated محسوس کرتے ہیں ۔فن کی زندہ مزاحمت مارکوز کہتا ہے کہ حاکم طبقے اصل آزادی سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ آزادی اُنہیں خطرہ لگتی ہے، اور رفتہ رفتہ “ممنوع” (taboo) بنا دی جاتی ہے۔ مارکیوز کے نزدیک مزاحمت کا آغاز فرد کی سطح سے ہونا چاہیے ۔۔یعنی چھوٹے چھوٹے ذاتی انکاروں سے، جو انسان کی آفاقی آزادی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ روزمرّہ کی مزاحمتیں، چاہے غیر آزاد معاشروں میں ہوں، آنے والی آزاد زندگی کی جھلک دکھا سکتی ہیں۔ جیسے شکیل جعفری کتنی خوبصورتی سے مزاحمت کا بیج بوتی ہے تتلی فاحشہ ہے پھول کے بستر پہ سوتی ہےیہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافرہےشریعاً تو کسی کا گنگنانا بھی نہیں جائزیہ بھنورا کیوں بھلا پھر چپ نہیں رہتا یہ کافر ہےیا جگر مراد آبادی کا یہ شعر:یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سےجو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہےسرمایہ داری انسان کو مشین بنا دیتی ہے، مگر اپنے دکھ، محبت اور خواب کو زندہ رکھنا خود مزاحمت ہے۔ یہی فن کا کردار ہے .. انسان کو یاد دلانا کہ وہ محض پرزہ نہں بلکہ محسوس کرنے ، تخلیق کرنے اور بدلنے والا وجود ہے ..یہ بتاتا ہے کہ انسان ابھی مرا نہیں، اس کے اندر احساس کی آگ باقی ہے۔بعض مارکسی نظریہ دان کہتے ہیں کہ آرٹ فریب (illusion) ہے،کیونکہ یہ حقیقت سے الگ ایک دنیا بناتا ہے۔مارکیوز کے مطابق “aesthetic illusion” فریب نہیں بلکہ آزادی کا تجربہ ہے۔ جب ہم کسی فلم میں انصاف یا محبت کی کامیابی دیکھ کر آزادی محسوس کرتے ہیں، تو یہی احساس خواب کو جنم دیتا ہے، اور خواب تبدیلی کی سمت پہلا قدم ہے۔سرمایہ داری ہر شے کو ’’استعمال‘‘ کے پیمانے پر تولتی ہے، حتیٰ کہ محبت اور الفاظ کو بھی۔ مگر فن اس منطق کو توڑ دیتا ہے، کیونکہ ایک نظم یا نغمہ نفع کے بغیر بھی دل میں اترتا ہے۔ یہی آزادی کی پہلی مشق ہے۔مارکیوز کہتا ہے، جب نظام ہر چیز کو جذب کر لے، تو حقیقی مزاحمت وہی ہے جو استعمال نہیں ہو سکتی ... یعنی ایسا فن جو آزاد ہو، مقصد سے ماورا۔ یہی بات مابعدِ نوآبادیاتی مفکرین بھی کہتے ہیں ۔۔۔مقامی، عوامی اور روزمرہ جمالیات خود آزادی کی طرف سفر ہیں۔ فن اگر ساختی مزاحمت نہ بھی کرے، تو حسّی اور تخلیقی سطح پر ضرور مزاحمت کرتا ہے۔ وہ دل، زبان، اور خواب بدل دیتا ہے .. اور انقلاب وہیں سے شروع ہوتا ہے۔جیسا کہ جالب کہتا ہے:اَک حشر بپا ہے گھر گھر میں، دم گھُٹتا ہے گنبدِ بے در میںاے دیدہ ورو! اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنااور اوتار سنگھ پاش کے الفاظ میں:سب توں خطرناک ہوندا ہےمُردہ شانتی نال بھر جانا، ساڈے سُپنیاں دا مر جاناایسا فن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جبر کے اندر بھی انسانیت زندہ ہے۔فرینکفرٹ اسکول کے مفکرین (ایڈورنو، ہورک ہائمر) کہتے ہیں کہ آج فن صنعت بن گیا ہے .. موسیقی اور فلم منافع کے لیے بنتے ہیں، مگر اس کے اندر بھی مزاحمت کی گنجائش باقی ہے۔ اسٹریٹ ڈانس، ریپ، فوک گیت، اور صوفی کلام ... یہ سب عام لوگوں کے دکھ بیان کر کے طاقت کے نظام پر سوال اٹھاتے ہیں۔۔جیسے مائیکل جیکسن کا " they dont really care about us", "alright" , " ساڈا حق " ، "295", " بلھا کی جاناں میں کون "، " اج اکھاں وارث شاہ نوں " ۔۔۔یوں فن اور ثقافت دو دھاری تلوار ہیں . وہ طاقت کو مضبوط بھی کر سکتے ہیں اور سماجی تبدیلی کا ہتھیار بھی بن سکتے ہیں۔اور فن، خواہ وہ لوک کہانی ہو، قوالی، یا فلم ہو ۔۔۔اگر وہ انسان کو احساس، تعلق، اور تخیل واپس دیتا ہے،تو وہ محض فن نہیں ۔۔۔ایک زندہ مزاحمت ہے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !