آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پوری انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے زندگی کے ہر شعبے میں انسانیت کی ایسی رہنمائی فرمائی ہے جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ گھریلو زندگی کے معاملات سے لےکر اجتماعی امور تک ، اپنوں کے ساتھ حسن سلوک سے لے کر غیروں کے ساتھ عدل و انصاف تک، ہر شعبہ حیات میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات رہنمائی کا سرچشمہ ہیں۔ اسی حیات مبارکہ کا ایک اہم پہلو جہاد اور غزوات سے متعلق ہے۔
جب ہم آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مغازی والی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کم تعداد والی فوج، جو کئی گنا بڑی فوج کا مقابلہ کرتی ہے، ہر دفعہ فتح یاب ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ رب العزت کی مدد و نصرت ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ رہی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد نہ ہوتی تو مٹھی بھر فوجیں کبھی بھی اپنے سے کئی گنا زیادہ تعداد والی فوجوں پر غالب نہ آ سکتیں، لیکن اس کے ساتھ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ایک قائد کی حیثیت سے ایسی کون سی تدابیر تھیں جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اختیار کیں، جن کی مثال آج کی دنیا میں بھی کم ہی ملتی ہے۔ وہ کون سی ایسی حکمت عملی تھی جس کی بدولت کم تعداد اور کم اسلحہ والی جماعت اسلحہ سے لیس فوجوں پر فتح حاصل کرتی رہی؟ اگر آج بھی وہی حکمت عملی اپنائی جائے تو صرف یہی تدابیر کامیابی کی ضمانت ہو سکتی ہیں۔
ہجرت کا منصوبہ اور تدبیر :
مکہ مکرمہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے وقت آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جو راستہ اختیار فرمایا، وہ عام راستے سے ہٹ کر ایک غیر معروف اور مشکل راستہ تھا، جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذہانت اور حکمت کا ثبوت ہے۔
مدینہ کی ریاست کو بیرونی حملوں سے بچانے کے لیے آپ نے کئی بار حفاظتی اقدام کے طور پر مدینہ کے باہر دستے بھیجے، تاکہ اردگرد گشت کرتے رہیں اور دشمن کو ناکام بنایا جا سکے۔
غزوہ بدر (2 ہجری): کم تعداد میں فتح کی مثال
بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی ، جبکہ کفار مکہ تین گنا زیادہ تعداد کے ساتھ موجود تھے۔ کفار نے پانی کے وسائل پر قبضہ کیا تھا ، تاکہ مسلمانوں کو جلدی شکست دی جا سکے۔ مسلمانوں کا لشکر دیر سے پہنچا، مگر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جو آج کے دور میں بھی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایسی ریتیلی جگہ کا انتخاب فرمایا ، جہاں بارش ہونے پر مسلمانوں کے لیے چلنا آسان ہو اور حملہ کرنے میں سہولت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے رات بھر بارش کی اور مسلمانوں نے پانی جمع کرنے کے لیے حوض بنایا۔ اس جگہ پر کیچڑ ہو گیا، جہاں کفار کے لشکر نے خیمہ زن تھے، اور کفار کے پاؤں پھسلنے لگے، جس سے وہ جم کر لڑ نہیں سکے۔ اس طرح بارش مسلمانوں کے لیے رحمت اور کفار کے لیے زحمت ثابت ہوئی۔ بالآخر خونریز لڑائی کے بعد اللہ تعالیٰ نے نہتے اور قلیل تعداد مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔
غزوہ احد (3 ہجری): دفاع اور حکمت عملی
بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کفار مکہ نے تین ہزار افراد پر مشتمل فوج تیار کی اور مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عمر رسیدہ اور تجربہ کار صحابہ کرام سے مشورہ لیا، جنہوں نے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کی تجویز دی۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رائے بھی یہی تھی، مگر چند نوجوان صحابہ، جنہوں نے بدر میں شرکت نہیں کی تھی، باہر جا کر لڑنے پر زور دیا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کی رائے قبول کر کے خود بھی زرہ زیب تن کر کے میدان میں تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لشکر کو اس طرح صف بندی کی کہ 50 تیر اندازوں کو حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک گھاٹی پر تعینات کیا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کر سکے۔ اس حکمت عملی سے کفار پہلے بھاگنے لگے، مگر کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جلد بازی کے باعث فتح عارضی طور پر شکست میں تبدیل ہو گئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا اور خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں تھے) نے پیچھے سے گھاٹی پر حملہ کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ پھر بھی دشمن پیٹھ دکھا کر بھاگنے پر مجبور ہوا۔ اس معرکہ میں ستر صحابہ شہید ہوئے، جن میں سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔
غزوہ خندق (5 ہجری): منفرد تدبیر اور کامیابی
جب یہودی قبائل بنو نضیر اور بنو قینقاع کو مدینہ سے جلا وطن کیا گیا، تو انہوں نے قریش، بنو غطفان اور دیگر حلیف قبائل کو مدینہ پر حملے کے لیے ابھارا۔ وہ دس ہزار کا زبردست لشکر لے کر اچانک مدینہ کی طرف بڑھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے پر شمالی جانب خندق کھودی گئی، کیونکہ مشرق و مغرب میں پہاڑیوں کی وجہ سے گھوڑے اور پیادہ افراد کا راستہ بند تھا۔ اس خندق نے دشمن کو مدینہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ دشمن نے کئی جگہوں سے خندق پار کرنے کی کوشش کی ، لیکن مسلمانوں کی طرف سے مسلسل تیروں کی بوچھاڑ نے انہیں روک دیا۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے ایک تیز ہوا کا طوفان بھیجا ، جس نے دشمن کے لشکر کو منتشر کر دیا اور وہ محاصرہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی۔
صلح حدیبیہ (6 ہجری): صلح اور حکمت
سن 6 ہجری میں ماہ ذی قعدہ میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔ ذوالحلیفہ پر احرام باندھا اور جانوروں کو قلادہ ڈالا۔ دشمن کی طرف سے جنگ کی تیاری کی خبر ملی، جس پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا اور اللہ کا نام لے کر روانہ ہونے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے راستہ بدل دیا ، تاکہ دشمن کے گھات کو ناکام بنایا جا سکے۔ اس موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قاصد کے طور پر بھیجا گیا، لیکن کفار نے انہیں روک دیا، جس پر بیعت رضوان کا واقعہ ہوا۔ اس کے بعد کفار مکہ صلح پر آمادہ ہوئے اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا، جسے قرآن پاک میں "فتح مبین" کہا گیا ہے۔ یہ صلح اسلام کے پھیلاؤ میں سنگ میل ثابت ہوئی۔
فتح مکہ (8 ہجری): حکمت، حکمرانی اور معافی
رمضان المبارک 8 ہجری میں جب کفار مکہ نے مسلمانوں کے حلفاء پر حملے کیے، تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ کی طرف قدم بڑھایا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دشمن کو مرعوب کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر آگ جلانے کا حکم دیا ، تاکہ دشمن کو مسلمانوں کی تعداد زیادہ محسوس ہو۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ کو مختلف راستوں سے گھیر لیا، اور اس دن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا، سوائے چند خاص افراد کے جنہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ بیشتر لوگ چھپ گئے اور بعد میں اسلام قبول کر گئے۔ یوں مکہ بغیر خونریزی کے فتح ہو گیا۔
غزوہ حنین (8 ہجری): جذبے اور ایمان کی فتح
فتح مکہ کے بعد کئی قبائل اسلام میں داخل ہونے لگے، مگر قبائل ہوازن اور ثقيف نے اسلام کے خلاف سازش کی۔ انہوں نے بارہ ہزار جانثاروں کا لشکر تیار کیا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خود بھی ہتھیار زیب تن کر کے لشکر کی قیادت کر رہے تھے۔ شروع میں مسلمانوں کو دھچکا لگا اور کچھ لوگ پیچھے ہٹ گئے، مگر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا:
"انا النبی لا کذب، انا ابن عبدالمطلب"(صحیح بخاری ، حدیث نمبر : 2864)
ان کلمات سے مسلمانوں کا حوصلہ بحال ہوا اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ مسلمانوں نے بھرپور فتح حاصل کی اور بڑی تعداد میں مال غنیمت بھی حاصل کیا۔
غزوہ تبوک (9 ہجری): مالی قربانی اور حکمت عملی
قیصر روم کے حملے کی افواہ سن کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مشکل حالات میں لشکر کشی کا اعلان کیا۔ صحابہ کرام نے اپنی جائیدادیں قربان کر دیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا گھر، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آدھا مال، اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ہزار دینار، ۳۰۰ اونٹ اور ۵۰ گھوڑے دیے۔ یہ قربانیاں اللہ کے ہاں بہت بڑی تھیں۔ قیصر روم نے صحابہ کی قربانی دیکھ کر جنگ سے گریز کیا اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم واپس لوٹے اور مختلف عیسائی حکمرانوں کے ساتھ امن معاہدے کیے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کامیابی کے ساتھ واپس مدینہ پہنچے۔
دیگر معرکے:
غزوہ خیبر میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے مضبوط قلعے اچانک حملے کرکے فتح کیے۔ یہاں محاصرہ کیا گیا اور دشمن کی طاقت کو توڑا گیا۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی میں ہمیشہ مشورہ، دور اندیشی، دشمن کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانا، جدید تدابیر اپنانا، اور اخلاقی برتری کا مظاہرہ شامل رہا۔
جنگی حکمت عملی کے بنیادی اصول
• ہر معرکے سے پہلے مشورہ لیتے۔
• دشمن کی حرکت کا پیشگی اندازہ لگانا۔
• لڑائی کے لیے جغرافیائی اور ماحولیاتی حالات کو مدنظر رکھنا۔
تجارتی ناکہ بندی کرنا
بہترین جاسوسی کا نظام بھی قابل ذکر ہے -
• جدید تدابیر اختیار کرنا جیسےخندق کھودنا اور راستوں کا تبدیل کرنا۔
• فتح کے بعد معافی اور رحم دلی کا مظاہرہ۔
• ہر مشکل میں اللہ کی مدد پر ایمان۔
خلاصہ :
حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت پر انحصار کرتی تھی، بلکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذہانت، دور اندیشی، اور عملی حکمت عملیوں کا بھی نتیجہ تھی۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہر معرکہ میں دشمن کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا، جدید تدابیر اپنائیں، اور اپنی فوج کو بہترین طریقے سے منظم کیا۔ معافی اور رحم دلی کو ہمیشہ مقدم رکھا، جس سے اسلام کی شان میں اضافہ ہوا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی یہ حکمت عملی آج بھی جنگ اور قیادت کے اصولوں کے لیے بہترین مثال ہے۔
