میری بچیو!
۔شہد کی مکھیاں بن جاؤ۔اور اپنے چھتے سے منسلک رہو۔ اس دور فتن میں جمعیت
تمھارے لئےچھتہ ہے۔ اور دنیا ایک وسیع
جنگل جہاں پھول، پھل، پودے،درخت،پہاڑ،دریا ہیں تو ساتھ ہی نالے،کیڑے مکوڑے،گندگیاں
اور غلاظتیں بھی ,زہریلے پودے اور جھاڑیاں
بھی ہیں ۔لہذاشہد کی مکھی کی سی صفات اپناؤ۔ان کا آج پہلا لیکچر تھا ۔اور
پہلی ہی بات چونکا دینے والی تھی۔شہد کی مکھی سے تشبیہہ ہمارے لئے بالکل نئی تھی
۔آمنہ نے سوال کیا معلمہ شہد کی مکھی ہی
کیوں بنیں ؟ ایسی کیا خاص بات ھے اس میں؟اور جمیعت چھتہ کیسے؟وہ مسکرا دیں ۔گہرا
سانس لیا اور بولیں۔ میری بچی تھوڑا ا صبر !زرا تفصیل سے سمجھاتی ہوں۔
حدیث مبارکہ میں نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے مومن کی مثال شہد کی مکھی سے دی ۔مثل المؤمن مثل النحل، لاتال إلا
طيبا، ولاتضع إلا طيبا" رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی مثال
شہد کی مکھی کی طرح ہے، جو (زمین سے بطور خوراک) پاکیزہ چیزیں استعمال میں لاتی ہے
اور پاکیزہ پھل دیتی ہے۔“دو وجوہات بتائی گئیں۔۔ پاکیزہ چیزیں استعمال کرتی ہےاور
پھل بھی پاکیزہ دیتی ہے۔اس تشبیہ سے بندہ مومن کو کیسا ہونا چاہیے ۔ذرا غور کرکے
معلوم کرتے ہیں۔ شہد کی مکھی کھیتوں، پہاڑوں، دریاؤں پر سفر کرتی ہے راستے
میں پھل ،پھول ہی نہیں کوڑا کرکٹ ، گندگی اور غلاظتںیں بھی سامنے آتی ہیں
۔مگر اپنے کردار میں مضبوطی دکھاتی ہے ۔وہ
گندگی کے قریب بھی نہیں جاتی، ہر غلاظت سے بچتی بچاتی پھلوں اور پھولوں کو
پا لیتی ہے ۔مومن کا سامنا بھی زندگی میں کئی طرح کی خرابیوں سے ہوتا ہے۔ کبھی
بدگمانی، جھوٹ ،غیبت اسے آلودہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔تو کبھی دنیاوی چمک دمک
اپنا جال بچھاتی ہے۔ ہر راستے پر نیا جال نئ الجھنیں کھڑی ہوتی ہیں۔کئ شکاری گھات
میں ہوتے ہیں۔لیکن وہ سب سے بچتا بچاتا چوکنا ہو کر طے شدہ راستے پر اپنے ہدف کی
تلاش میں گامزن رہتا ہے۔ہر جگہ کی خوشبو اپنے اندر محفوظ کرتے ہدف پر پہنچ کر بغیر
سستائے اپنے مقصد کے لئے توانائیاں سمیٹنے میں لگ جاتا ہے۔ہمیشہ اچھی جگہ ،اچھی
صحبت،اچھے کردار وں کا ہی انتخاب کرتا ہے۔خود کو ہر آلودگی سے بچاتا ہے۔۔شہد کی
مکھی کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ پھولوں کا
باریک بینی سے مشاہدہ کرتی صرف اچھے اور خوشبودار مواد کو چھانٹ کر الگ کر
لیتی ہے۔اوررس سمیٹتی خوشبو میں لپٹی لپٹائی رخصت ہوجاتی ہے۔
مومن بھی اچھی صحبت اختیار کرتا
ہے۔ہر ایک کے شر سے قطع نظر خیر لیتا،
بھلائی کے موتی سمیٹنے میں مشغول رہتا
ہے۔بلا آخر اخلاق حسنہ کی خوشبو
سے دامن بھرے رخصت ہوتا ہے۔شہد کی مکھی میں منفرد بات یہ ہے کہ چھتے سے مقصد کی
تکمیل کے لیے بہت دور چلی جاتی ہے۔لیکن جتنی بھی دور جائےنہ مقصد اور نہ ہی راستہ
بھولتی ہے۔مومن بھی زمان و مکان کی قید سے
آزاد ہوتا ہے۔لیکن مقصد یاد رکھتا ہے۔کہ ہر جگہ ہر مقام پر اسکی ایک ہی پہچان ہے
کہ وہ اللہ کا بندہ ہے۔بلند سے بلند مقام،چمکدار سے چمکدار چیز بھی اسے اپنے خالق
سے غافل نہیں کرتی ۔اور نہ ہی کوئی اندھیرا چاہے کتنا گہرا ہو اسے مایوسی اور ناامیدی کی دلدل میں گراتاہے۔کہ وہ جانتا ہےاس کا عظیم
رب اس کا ساتھی اس کا ہمنوا ہے۔اور اس نے
ہر حال میں لوٹنا اسی کی طرف ہے۔ شہد کی
مکھی کی قربانی اور اخلاص بھی قابل
رشک ہے۔نفسا نفسی کی دنیا میں ہوتے ہوئے
بھی اپنا رس اجتماعیت میں جا ڈالتی ہے۔اکیلے فائدہ کبھی نہیں اٹھاتی۔
مومن بھی ہر مقام پر اپنا کام ایک
مزدور کی طرح کسی صلے یا ناموری کی خواہش کے بغیر کرتا ہے۔اس کا بے لوث کام
اجتماعیت کو غذا دیتا اسے کھڑا رکھتا ہے۔
اسی کی بے لوث خدمت سے اجتماعیت کا پودا تناور درخت میں تبدیل ہو تا ہے۔اس درخت سے
سالہاسال لوگ سایہ حاصل کرتے ہیں اسکا پھل کھاتے ہیں۔ اسکی شاخوں اور ٹہنیوں سے
فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔پوری دنیا کی تحریکات اسلامی کے گمنام کارکنوں نے اسلام کے
درخت کی جو بے لوث خدمت کی اس کا پھل ہم آج بھی کھا رہے ہیں۔ اور قیامت تک نسلیں
اس سے مستفید ہوتی رہیں گی۔مکھی کا تیار
کردہ شہد اللہ کی نشانیوں میں سے ایک اعلیٰ درجے کی نشانی ہے۔مومن بھی اللہ کی
نشانی ہوتا ہے۔بےغرض بے لوث خدمت کرنے والاقران وسنت سے رس سمیٹتا ،ملت کے درد کی
درماندگی کرتا، زخموں پر مرہم رکھتا،علاج کرتا ہے۔ اپنی نیندیں اپنا سکھ چین
دوسروں کے لئے تج دیتا ہے۔ بقول شاعر میر درددرد دل کے واسطے پیدا کیا انسان
کوورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاںایک اور شاعر نے کیا خوب کہا
؎خنجر چلے کسی پہ
تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
شہد کی مکھی ایک منظم اجتماعیت کا حصہ ہوتی ہے۔شہد کے چھتے کا نظام کسی
بڑی ریاست کے نظام سے کسی بھی صورت کم نہیں ہوتا۔بچے پالنے،شہد محفوظ کرنے،چھتے
بنانے،انڈے دینے،آنے والے شہد اور مکھیوں کو جانچنے،حفاظت کرنے،کاموں کی
تفویض،ایک امیر کے تابع ہونے،متحرک ہونے،منتقل ہونے کا مرتب اور منظم نظام ہوتا
ہے۔جس سے انحراف کسی مکھی کے لئے ممکن ہی نہیں ہوتا۔شہد کی مکھی کی دنیا ایک مہذب
ترین دنیا ہے۔اور اس کا جہاں مرتب جہاں ہے۔ایک مومن کی دنیا بھی بہت منظم اور مرتب
ہوتی ہے۔وہ ایک طرف ایک بڑی اجتماعیت کا حصہ ہوتا ہے۔جو زمان و مکان میں مقید نہیں
تو دوسری طرف اسکی انفرادی زندگی کا بھی متوازن نظام ہے ۔اسے مقاصد اور ترجیحات کا
علم ہوتا ہے۔وہ ہر قدم شعوری طور پر اٹھاتا ہے۔ وہ اپنے رشتوں کو متوازن رکھتا
ہے۔اچھا بیٹا، مثالی باپ،دردمند انسان،اپنے مقام پر فرض کی انجام دہی یکسوئی سے
کرتا ہے۔خلیفہ فی الارض کی حیثیت کبھی نہیں بھولتا۔اللہ کے قانون کو اپنے مقام پر
نافذ کرنے کی کوشش کرتے بڑی اجتماعیت پر اثر ڈالتا ہے۔اپنے فرائض کی ادائیگی میں
مصروف عمل دیگر لوگوں کو بھی ساتھ ملائے
کائنات کے بڑے نظام میں لازوال کردار نبھاتا ہے ۔بقول شاعر
؎ہر لحظہ مومن کی
نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
شہد کی ہر مکھی کا مقرر کردہ کام ہوتا ہے جس میں تن من دھن لگائے رکھتی
ہے۔ سستی اور کاہلی سے دور مقصد میں مگن ہمہ تن خود کو مصروف عمل رکھتی ہے۔مومن
بھی دنیا کو امتحان گاہ سمجھتا ہے۔اللہ کے تفویض کیے گئے راستے پر چلتا رہتا
ہے۔چاہے دنیا میں سے کوئی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہو ۔وہ راستہ نہیں چھوڑتا وہ
تن من دھن لگا دیتا ہے۔بقول علامہ اقبال
؎یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے
قرآن
شہد کی مکھی میں تمیز اور مشاہدہ
کی اعلیٰ ترین صلاحیت ہوتی ہے۔صحیح اور غلط کی غیر معمولی پہچان بھیرکھتی
ہے۔زہریلے پھول یا پودے پر کبھی نہیں بیٹھتی اور کچھ نہ ملنے پر گند نہیں اٹھا
لاتی۔مومن بھی طاغوت کے پھیلائے گئے جالوں کو پہچان کر اپنا لائحہ عمل طے کر تا
ہے۔جال کتنا ہی رنگین کیوں نہ ہو اسکی بصیرت بھانپ لیتی ہے۔وہ راستوں میں گم نہیں
ہوتا۔بقول علامہ اقبال
؎ کافر کی یہ پہچان
کہ وہ آفاق میں گم ہے۔
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے
آفاق
شہد کی مکھی جب کسی باغ پھولوں یا پھلوں کو دریافت کرتی ہے۔تو دوسروں کو
استفادہ کے لئے مکمل رہنمائی کرتی ہے۔ ساتھیوں کو اس کا پورا محل وقوع بتاتی ہے۔
مومن بھی ہر خیر کو پھیلاتا ہے۔دوسروں کو اس سے استفادہ کی ترغیب دیتا ہے۔مکمل
رہنمائی بھی کرتا ہے۔دوسروں کو آگے بڑھتے دیکھ کر گویا جی اٹھتا ہے۔جہان تازہ میں
محو سفر رہتا ہے۔بقول شاعرجہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمودکہ سنگ و خشت سے ہوتے
نہیں جہاں پیداشہد کی مکھی سائنسی پہنچ سے کہیں اوپر حیران کن، ایسی اعلیٰ درجے کی
صلاحیت کی مالک ہے کہ تمام سائنس دان اور ٹیکنالوجی مل کر بھی ویسا شہد نہیں بنا
سکتے۔جیسا شہد کی مکھی ہزارہا سال سے متواتر بنا رہی ہے۔ ایسا شہد جو سالہاسال نہ
خراب ہوتا ہےاور اس کے اندر کچھ ڈال دیا
جائے تو وہ بھی خراب نہیں ہوتا۔مومن بھی اپنے کام اتنے خلوص سے کرتا ہے ۔کہ اسکی
کی گئی محنت کبھی ضائع نہیں جاتی۔ پائیداری ایسی کہ زمانے گزرنے پر بھی اس کا
کردار ماند نہیں پڑتا ۔اس کے لگائے گئے پودے صدیوں پھل اور نسلوں کو سایہ دیتے
ہیں۔ بقول شاعروہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہےجوہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا
یہ مکھی ایک بڑی اجتماعیت کا زندگی بھر
حصہ رہتی ہے۔چاہے اس کے پر کاٹ کر پھینک
ہی کیوں نہ دیے جائیں۔اس سےالگ ہو نے کا سوچ ہی نہیں سکتی۔
مومن بھی اجتماعیت سے زرا برابر
الگ نہیں ہوتا۔اسی سے منسلک رہنے کو سعادت سمجھتا ہے۔اور وہ اجتماعیت ہی ہے۔جو کار
خیر میں اسکی پشت پناہی کرتی ہے۔یہاں وہ ہار کر بھی بلا آخر جیت جاتا ہے۔دنیا کے
تمام جاندار آپس میں لڑتے ہیں۔یہ آپس میں کبھی نہیں لڑتیں۔اس کی دنیا امن وامان
کی آماج گاہ ہوتی ہے۔ مومن کے سامنے بڑے مقاصد ہوتے ہیں۔وہ چھوٹے جھگڑوں میں کبھی
نہیں پڑتا۔ نہ بےکار میں کہیں الجھتا ہے۔چھتے کا انتظام دیکھنے سے تعلق رکھتا
ہے۔ایک الگ ہی دنیا ہے۔اس کے تیار کردہ شہد میں ہزارہا بیماریوں کی شفا اور علاج
ہے۔ مومن قرآن وحدیث کے علم سے جو رس کشید کرتا ہے۔ اسے اپنے عمل میں ڈھالتا
معاشرے کو خیر کی دعوت دیتا پے۔ یہ مکھی اپنے شہد کی حفاظت کا اتنا اعلیٰ نظام
رکھتی ہے کہ رس لانے والی مکھیوں کی باقاعدہ جانچ کی جاتی ہے اور اگر کسی مکھی سے
غلط پودے پر بیٹھنے کے آثار پائے جائیں تو ایک مقررہ ٹیم ان کے پر اکھیڑ دیتی
ہے۔کسی چھتے کے نیچے موجود مکھیوں کے پراس بات کی علامت ہوتےہیں۔کہ انھوں نے اپنے
کام میں بے احتیاطی کی ہے۔اور نقصان دہ مواد لائ ہیں۔مومن بھی غلط افکار سے تباہ
ہو جاتا ہے۔ اس کی کائنات لٹ جاتی ہے۔لہذا محتاط ہو کر کام کرتا ہے۔کوئ شہد اتار
لے تو احتجاج نہیں کرتیں۔بلکہ نیا چھتہ بنانے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔
مومن بھی اپنی قوتوں کو دوسروں پر
خرچ کرنے میں زندگی بتا دیتا ہے۔شہد کی مکھی انتہائ لطیف مزاج رکھتی ہیں۔انسانوں
سے کچھ نہیں چھینتی۔صرف دینے کی قائل
ہے۔مومن بھی دنیا میں کسی نتیجے
حاصل حصول کے بغیر اپنا کام کیے جاتا ہے۔ شہد کی مکھی ماحول کے مطابق مختلف
رنگ کا شہد بناتی ہیں۔نئ نسلوں کی تعلیم و تربیت میں خود کو کھپا دیتی ہےمومن بھی
کھیتوں کی آبیاری میں لگا رہتا جہد مسلسل میں عمر بتا دیتا ہے۔صبح سویرے اپنے کام
کا آغاز کر لیتی ہے۔شہد سے بھری لوٹتی ہے۔ مومن بھی ہر جگہ سے اپنے حصے کی خیر لے
کر ہی لوٹتا ہے۔شہد کی مکھی ہر نئ صبح نئی
خوشبو نئی رس کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔اس کی یہ دوڑ دھوپ اور تلاش تا عمر جاری
رہتی ہے۔مومن کے بھی روز و شب خوشبو اور
مٹھاس سمیٹنےبانٹنے اور محفوظ کرنے میں بیتتے جاتے ہیں۔انھی مراحل میں کئی نئی
مکھیا ں یعنی نئی نسلیں اس کے ساتھ عازم سفر رہتی ہیں۔ مومن بھی اپنی خیر کے
کارواں کو لے کر اپنے راستے پر کمربستہ رہتا ہے۔مکھی کی عمر کی کمائی شفا اور قوت کا سبب بنتی ہے۔یہ سب بلندی اس سبب
سے ہے کہ وہ وحی کی پیروی کرتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ
:
"اور تیرے رب نے شہد کی مکھی
کی طرف وحی کی کہ کچھ پہاڑوں میں سے گھر بنا اور کچھ درختوں میں سے اور کچھ اس میں
سے جو لوگ چھپر بناتے ہیں۔ [68]"
" پھر ہر قسم کے پھلوں سے
کھا، پھر اپنے رب کے راستوں پر چل جو مسخر کیے ہوئے ہیں۔ ان کے پیٹوں سے پینے کی
ایک چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں، اس میں لوگوں کے لیے ایک قسم کی شفا ہے۔
بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا ایک نشانی ہے جو غوروفکر کرتے ہیں۔" [69]
مومن بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔سراپا خیر خوشبو سمیٹتا گندگیوں سے کنارہ کرتا
مہکتا مہکاتا۔ تعمیر میں نئی نسلوں کو لگاتا ۔خیر پھیلاتا ۔دنیا کومنظم ومرتب
کرتا،ایک پرامن دنیا کی تشکیل کرتا ہے۔جہاں اس کی موجودگی سے دوسروں کو راحت ملتی
ہے۔اپنی کمزور یوں کو جا ن کراستعداد کو بڑھاتاہے۔خوشبووں کی حفاظت کرتاہے۔کسی سے
کچھ نہیں چھینتا۔ اپنا دامن دوسروں کے لئے کشادہ رکھتا ہے۔اچھائ اور بھلائی کا
محافظ بنتا ، خود غرض نہیں ہو تا۔نیکی اور خیر کو جاری کرتا اچھے اقدامات کرتاخود
کو ایک بڑی اجتماعیت سے منسلک رکھتا ہے۔ اس دنیا کو انتہائی متناسب انداز میں
سنوارتا ،کوئی کجی، رخنہ نہیں چھوڑتا۔ دوسروں کے کل کے لۓ
اپنا آج قربان کر دیتا ہے۔ہر صبح نئی تمناؤں کے ساتھ ،کسی خدمت کو چھوٹا سمجھے
بغیر تن من دھن لگا تے مطمئن رہتا ہے۔ لوگوں کے لئے کندھا اور سہارا بنتا ہے۔ آپ
مکھیاں اور جمیعت چھتہ کیسے ہے۔یہ سمجھنا اب مشکل نہیں ۔کہ جمیعت چھتے کا کام
کرتی، منظم کرتی ،اجتماعیت سے جوڑتی،ایک نظام کا حصہ بناتی ہے۔اور آپ اس سے خیر ہی خیر سمیٹے رواں دواں
رہتے ہیں۔اس کے برخلاف ایک دوسری دنیا دوسری مکھی سے مشابہ ہے۔اس کا ذکر بھی قران
میں ہے۔ وہ اس سے قطعی بالکل مختلف دنیا سے متعلق
ہے۔گند پر بیٹھتی، گندگی کو خوراک بناتی ،اکیلے رہتی ،چھین کر لے جاتی
ہے۔گند اندر ڈالتی اور گندگی اور بیماریاں ہی پھیلاتی ہے۔نہ خود سکون لیتی نہ کسی
کو لینے دیتی ہے۔خودغرض اور وحی سے ہٹ کر چلتی ہے۔لوگ اسے مارتے ،ختم کر دینا
چاہتے ہیں۔ اسی لئے قرآن کریم میں اس کا تذکرہ ایک حقیر مخلوق کے طور پر ہےمیری
بچیو!یہ گندی مکھی نہ بن جانا۔وحی کی حامل اجتماعیت کو تھامے رکھنا۔ وہ جنھوں نے
گندی مکھی کے طریقے کو اختیار کیا۔ قاعدے قانون سے ہٹ کر زندگی گزاری۔قران کریم ان
لوگوں کا حال اس طرح بیان کرتا ہے۔ترجمہ:
" اور کتنے ہی شہر تھے جنہوں
نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں سے سرکشی کی تو ہم نے ان سے سخت حسا ب لیا اور
انہیں بُری مار دی تو انہوں نے اپنے کیے کا وبال چکھا اور ان کے کام کاانجام گھاٹا
ہوا"

