سنجیدہ کام کرنے والے کو وہ بھی درکار ہیں جو ان کو پڑھ سکیں پر چند سیکنڈ کی ریلز دیکھتے دیکھتے گھنٹوں گزارنے والوں کی توجہ کا دورانیہ کیا ہو گیا ہے اس پر کڑھنے والوں کو متبادل تجویز کرنے کی ضرورت ہے پر کیا ہو اگر وہ متبادل تجویز کرتے رہیں پر پالیسی ساز سے لے کر عمل کرنے والوں تک کی کڑی سے جڑے ہر فرد کا بھی فائدہ اسی میں ہو کہ غیرسنجیدہ کام میں زندگی بسر کرائی جائے تاکہ اپنا غصہ اپنی فرسٹریشن اپنی زندگیوں میں در آنے والی نااہلی پر محض ایک سطر لکھ کر یا چند الفاظ کے سہارے ان سب کو ڈرین کر لیا جائے تاکہ یہ سب وقتی ابال بن کر نکلتا رہے اور اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکے۔۔
کتاب ہو یا تحریک ، زندگی کے راستے تبدیل کرنے ہوں یا منزل یہ سبھی سنجیدگی سے کرنے والے کام ہیں۔ پھکڑ پن اور ہنسانے والے میں فرق ہوتا ہے۔ حکمتِ عملی اور منافقت میں بھی اتنا ہی باریک فرق ہے جتنا معاملہ فہمی اور بےغیرتی میں یا بہادری اور بےوقوفی میں۔ آج ہمارے بچے ان لوگوں کو سنتے دیکھتے دن گزارتے ہیں جس قماش کے افراد کو ہم اپنے گھر کے افراد تک کبھی رسائی نہ دیں۔ جو اپنی بیوی کو سوشل میڈیا پر لا بٹھائے اور دوسری عورتوں کو ڈیجیٹل طوائف کہے اس آدمی کو محض تبرٰی واسطے سننا بھی اس کو وہ اہمیت اور وقت دینا ہے جس کا وہ طالب ہے، جو خاتون یہ بتاتی رہے کہ آج کل شادیاں عورتوں کی ناشکری سے نہیں چلتیں اور فیمینسٹس کیوں بری ہیں اس کی زبان اپنی شادی کے جوڑے اور زیور کی قیمت بتاتے نہیں لڑکھڑاتی ۔ یہ اور ایسے بہت سے لوگ آپ کی توجہ کے طالب ہیں کیونکہ جو چیز آپ کو مفت یا کم پیسوں میں مل رہی ہے وہاں خرچ آپ ہو رہے ہیں، پراڈکٹ وہ نہیں شاید پراڈکٹ ہم ہی ہوں؟ ہمیں ہی ڈیٹا کے نام پر بیچا اور خریدا جا رہا ہو؟ ہمارے ڈیجیٹل فٹ پرنٹ پر ہم سے زیادہ اور لوگوں کا حق ہو؟ الگورتھم ہمیں چلانے لگیں اور ہم چلنے لگیں؟ ایک سیکنڈ کے بھی ایک حصے جتنی دی جانے والی توجہ پر بھی کسی ڈیٹا سینٹر کی نظر ہو؟ اور ہم یوں اپنا سب اٹھا کر ان
رزق کی دوڑ میں بھاگتے دن گزارتے بہت سے پیٹ بھرے افراد ایک کے بعد ایک نیا بینچ مارک اچیوو کرنے کے چکر میں ان کو سکرین پکڑا دیتے ہیں جن کے لیے یہ سب سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ یہ بینچ مارک گھر کے کام ہوں کسی کی خوشنودی ہو اپنا می ٹائم ہو یا دفتر کا رہا سہا کام یا سوسائٹی میں بڑا گھر یا پھر بڑی گاڑی اس سب کے بدلے نقصان محض آنکھوں کا نہیں ذہن کا بھی ہے پر ہم ایسے چکر ویو میں الجھ چکے ہیں جس سے نکلنے کا راستہ انتہائی محنت طلب ہے اور دن بھر کی محنت کے بعد ایک اور محنت ایک اور انسان مانگتی ہے جو ضروری نہیں پیرنٹنگ میں دلچسپی رکھتا ہو۔ بعض اوقات زندگی میں پیسہ کما سکنے کے علاوہ بھی کچھ چیزیں اہم ہوتی ہیں اور بسا اوقات پیسے دے دینے سے زیادہ بھی کچھ دینا اہم ہوتا ہے پر جیسا کہ یہاں تک پڑھنے والے جانتے ہیں یہ محض کتابی باتیں ہیں ان کا تعلق محض ہم سے ہے زندگی کے حقائق کا ان سے کچھ لینا دینا نہیں ۔
اس سب کے باوجود انٹرنیٹ ایک necessary evil کی شکل اختیار کر چکا ہو تو اسے اپنی زندگی میں اتنا ہی رکھیں جتنا اس کی جگہ بنتی ہے۔ جتنی جگہ آپ کے پارٹنر کی یا اولاد کی یا جاب کی یا دوستی کی بنتی ہے ہو سکتا ہے اس سے کم ؟یا زیادہ؟ یہ تعین تو آپ نے کرنا ہے پر پھر اس فیصلے کی بھی قیمت ہے جو کہ ہر فیصلے کی ہوتی ہے۔
ہم جو پڑھتے ہیں وہ انسان لکھتے تھے، سو طرح کی کتابوں کے شیلف کے سامنے کھڑے آپ کی نظر کسی ایسی کتاب پر بھی پڑ سکتی ہے جو آپ کے خیالات سے متصادم ہو پر سوچ کا ایک نیا زاویہ سامنے لے آئے۔ پھر ہمیں ایلگورتھمز نے ہماری پسند کے دائرے میں قید کر لیا وہاں سے آگے وہ دکھایا جس سے ہم خوف کھاتے ہوں، ہمارے دماغ تک پہنچنے کی کوشش میں انہوں نے ہمیں ڈی کوڈ کرنا چاہا اور توجہ کے بدلے میں ہم سے ہماری تخلیق سوچ اور انہماک چھین لیا، کہیں ٹھہر کر غور وفکر کرنا بھی۔۔ اب ہم جو پڑھنا چاہتے ہیں وہ لکھوا سکتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں وہی سننے کی سہولت میسر ہے وہی سنوایا اور کہا جا رہا ہے ۔ پر اس کہنے سننے میں انسان کی بات اور ہیومن انٹرایکشن کی قدر گھٹ جائے تو لگتا ہے کووڈ کے لاک ڈاؤن سے انسان چھونے کی اہمیت کو سمجھ سکتا تھا پر کیا اس نے یہی سیکھا؟ اتنی ہی تنخواہ میں روزانہ آمد و رفت کا خرچہ وقت اور ماحول کو بچا سکتا ہے ورک فراہم ہوم دے کر بھی کام چل سکتا ہے ؟ ہو سکتا ہے جنہیں لگتا ہو اکیلے رہنا ہی کامیابی ہے انہوں نے کبھی غور ہی نہیں کیا بینک سے لے کر نوکری تک کمائی سے کھانے تک گاڑی سے ٹریکٹر تک آپ کو جو بھی چاہیے ہر جگہ اور انسان ہیں جو یہ کر رہے ہیں تو آپ چل رہے ہیں؟ پھکی بیچنے دھوکہ دینے فریب کھانے اعتبار کرنے کے لیے بھی آپ کو کسی اور کا ہونا درکار ہے یہاں تک کہ پیدا ہونے سے لے کر قبر میں اتارے جانے کے لیے بھی۔
